جدید غلامی کے شکار کروڑوں انسان، کن ممالک میں سب سے زیادہ
23 اگست 2020
آج کے دور میں دنیا کے کم از کم چالیس ملین یا چار کروڑ انسان ایسے ہیں، جو جدید غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں ریکارڈ حد تک زیادہ ہے اور غلاموں کی یہ عالمگیر تجارت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
اشتہار
آج کی بظاہر جدید، ترقی یافتہ اور باشعور دنیا میں کم ازکم بھی چار کروڑ انسان ایسے ہیں، جن کی تعداد متواتر اس لیے بڑھتی جا رہی ہے کہ دنیا کے بہت سے خطوں میں غربت، مسلح تنازعات اور طرح طرح کے خونریز بحران جدید غلامی کے ماحول کو ہوا دیتے ہی جا رہے ہیں۔
جدید غلامی کی مختلف شکلیں
اس جدید غلامی کی کئی شکلیں ہیں، جن میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور زرعی فارموں اور ماہی گیری کے شعبے میں کام کرنے والے مردوں کے علاوہ وہ خواتین بھی شامل ہیں جن سے جبراﹰ جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔ یہی نہیں جدید غلامی کی انہی صورتوں میں وہ انسان بھی شامل ہیں، جن کے جسمانی اعضاء بیچ دیے جاتے ہیں اور وہ بچے بھی جن سے سڑکوں پر بھیک منگوائی جاتی ہے یا جن کی کم سنی میں زبردستی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کروڑوں انسانوں کو جدید غلامی کی مختلف شکلوں کے ساتھ ان کی شخصی آزادیوں اور بنیادی حقوق سے محروم کر دینے اور ان کا مسلسل استحصال کرتے رہنے کا یہ عمل انسانوں کی اسمگلنگ کی وجہ سے بھی پھیلتا ہی جا رہا ہے، جس سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فعال جرائم پیشہ گروہ مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور انہیں ہر سال قریب 150 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔
جدید غلامی کی سب سے زیادہ شرح کن ممالک میں
اس رپورٹ کے مطابق مشرقی بعید کی کمیونسٹ ریاست شمالی کوریا اور افریقہ میں اریٹریا اور برونڈی ایسے ممالک ہیں، جہاں انسانوں کو جدید غلامی کی زندگی پر مجبور کیے جانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک، چین اور بھارت اور ان کے علاوہ جنوبی ایشیا میں پاکستان بھی ایک ایسا ملک ہے، جہاں جدید غلامی سے متاثرہ انسانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ان پریشان کن حالات نے اقوام متحدہ کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ جدید غلامی کی ان شکلوں کے خاتمے کے لیے باقاعدہ اقدامات کرے۔ اسی لیے اس عالمی ادارے نے تیس جولائی کو انسانوں کی تجارت کے خاتمے کی کوششوں کا عالمی دن قرار دے دیا۔ آج منائے جانے والے اس دن کا مقصد دنیا سے جبری مشقت اور جدید غلامی کے سن 2030ء تک خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔
انسانوں کی جدید غلامی سے متعلق چند بنیادی حقائق
انسانوں کی اسمگلنگ اور تجارت ان کے استحصال اور جدید غلامی کی جن شکلوں کے لیے کی جاتی ہے، ان میں جبری جسم فروشی، جبری مشقت، بھیک منگوانا، گھریلو ملازموں کے طور پر غلاموں کا سا برتاؤ، جبری شادیاں اور جسم کے مختلف اعضاء نکال لینا زیادہ بڑے مجرمانہ مقاصد ہیں۔
۔ گزشتہ چند برسوں سے انسانوں کی اسمگلنگ اور تجارت کا منظر نامہ کافی بدل چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ سے زیادہ مرد اور بچے بھی اس جرم کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جن سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے۔
۔ اس وقت دنیا بھر میں جدید غلامی کے شکار انسانوں کی تعداد 40 ملین یا چار کروڑ بنتی ہے۔ ان میں سے 25 ملین یا ڈھائی کروڑ سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے جبکہ 15 ملین یا ڈیڑھ کروڑ کی جبری شادیاں کرائی جا چکی ہیں۔
۔ جدید دور کے غلام بنا لیے گئے ان کروڑوں انسانوں میں سے قریب تین چوتھائی خواتین یا لڑکیاں ہیں جبکہ ایسا ہر چوتھا انسان کوئی نہ کوئی نابالغ لڑکا یا لڑکی ہے۔
۔ جدید غلامی کی سب سے زیادہ اور مروجہ شکلیں پہلے براعظم افریقہ کے مختلف ممالک اور ان کے بعد ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے کے ممالک میں پائی جاتی ہیں۔
۔ پوری دنیا میں جس ایک ملک میں سب سے زیادہ انسان جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ شمالی کوریا ہے، جہاں ایسے انسانوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا قریب 10 فیصد بنتی ہے۔ اس کے بعد 9.3 فیصد کے ساتھ اریٹریا اور چار فیصد کے ساتھ برونڈی کا نام آتا ہے۔
۔ پاکستان میں 1.7 فیصد یا قریب 3.2 ملین شہری جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایران میں یہ شرح 1.6 فیصد بنتی ہے۔
۔ دنیا بھر میں جس ایک ملک میں سب سے زیادہ انسان جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ بھارت ہے۔ جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں ایسے انسانوں کی تعداد آٹھ ملین یا 80 لاکھ بنتی ہے۔
۔ انسانوں کی اسمگلنگ عالمی سطح پر ایک ایسا گھناؤنا کاروبار ہے، جس کی وجہ سے انسانوں کے اسمگلروں کے جرائم پیشہ گروہوں اور ایسے انسانوں سے غلاموں کی طرح مشقت لینے والوں کو سالانہ قریب 150 ارب ڈالر کی ناجائز آمدنی ہوتی ہے۔
م م / ع ب / اقوام متحدہ، تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
افریقہ میں انسانی اسمگلروں کا تعاقب
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔