جذبہ خیر سگالی: مزید بھارتی ماہی گیر رہا
2 ستمبر 2010دو روز قبل بھی100 ماہی گیروں کو رہا کیا گیا تھا ، جو اب اپنے وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ صوبائی وزارت داخلہ کے حکام نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جن ماہی گیروں نے ڈھائی سال سے تین سال کا عرصہ قید میں گزار لیا ہے ایسے 350 ماہی گیروں کو مرحلہ وار رہا کیا جارہا ہے۔
جوائنٹ کمیشن آف پاکستان اینڈ انڈین پریذنر کے رکن اور جیلوں میں اصلاحات کے لیے کام کرنے والے جسٹس ریٹائر ناصر اسلم زاہد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جن قیدیوں کو خالصتاً خیر سگالی کے جذبے کے تحت نہیں بلکہ سپریم کورٹ کی سرزنش سے بچنے کے لیے رہا کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں قید ماہی گیروں کی رہائی کے لیے مشترکہ کمیشن نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سرحد کے دونوں جانب بے گناہ قیدیوں کی رہائی کے لئے بھرپور اقدامات کئے جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان نے وعدہ پورا کردیا ہے، اور اب بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی پاکستانی قیدیوں کو جلد از جلد رہا کرے۔
ماہی گیروں کی رہائی کے موقع پر حکومت کی طرف سے قیدیوں کو بھارتی کرنسی کے 100روپے اور اجرک اور تحائف دیئے گئے۔ یہ تمام رہائی پانے والے ماہی گیر بے پناہ خوش تھے۔ انہوں نے اپنی رہائی پرپاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا اورانہوں نے کہا کہ وہ اپنی حکومت سے کہیں گے کہ وہ پاکستانی قیدیوں کو جلد از جلدرہا کریں۔ قیدیوں نے پاکستانی جیلوں میں ہونے والے سلوک کی بھی تعریف کی۔
ماہی گیروں کی رہائی کے موقع پر درخواست گزار کے وکیل اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے وکیل اقبال حیدر کا کہنا تھا کہ اب ان کی کوشش ہوگی کہ عید الفطر سے قبل پاکستان واپس آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھارت سے کہیں گے کہ پاکستانی ماہی گیروں کو بھی اتنی آسانی سے رہا کیا جائے جیسا کہ پاکستان نے کیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان دیرینہ مسائل پرکشیدگی کے سبب، با مقصدمذاکرات کی جانب پیش قدمی نہیں کر پارہے۔ لیکن دونوں ممالک کی جانب سے ماہی گیروں کی گرفتاریاں اور رہائی کے اقدامات ایک ایسا پیمانہ ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی سطح کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ ماہی گیروں کی رہائی کو دیکھتے ہوئے اس بات کاعندیہ دیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک خطے کی صورتحال اور دیرینہ مسائل پر بامقصد مذاکرات کے لئے پیش قدمی کرسکتے ہیں۔
بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو بھارت کی طرف سے مثبت جواب اور انتظامات کا انتظار ہے مگر لگتا ہے کہ بھارتی حکومت چاہتے ہوئے بھی اپنے داخلی اور سیاسی دباﺅ کے سبب پاکستان کی مثبت پیش رفت کا جواب دینے سے گریزاں ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: عاطف بلوچ