جرائم کے مرتکب شامی اور افغان باشندوں کی ملک بدری کا مطالبہ
30 دسمبر 2024
جرمنی میں آئندہ برس فروری میں ہونے والے قومی انتخابات میں اپوزیشن کی قدامت پسند یونین جماعتوں کے چانسلرشپ کے امیدوار فریڈرش میرس نے مطالبہ کیا ہے کہ جرائم کے مرتکب شامی اور افغان باشندوں کو جرمنی سے ملک بدر کیا جائے۔
اشتہار
وفاقی دارالحکومت برلن سے پیر 30 دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فریڈرش میرس نے، جو وفاقی چانسلر کے عہدے کے لیے سوشل ڈیموکریٹ رہنما اولاف شولس کے مقابلے میں رائے عامہ کے جائزوں میں اپنے حریف سے کافی آگے ہیں، جرمن نیوز ایجنسی ڈٰی پی اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ شام اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایسے تارکین وطن اور مہاجرین جو جرائم کے مرتکب ہوئے، انہیں بلاتاخیر ملک بدر کیا جانا چاہیے۔
فریڈرش میرس، جو قدامت پسند یونین جماعت کرسچن ڈٰیموکریٹک یونین (سی ڈٰی یو) اور صوبے باویریا میں اس جماعت کی اتحادی پارٹی کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے چانسلر کے عہدے کے لیے متفقہ امیدوار ہیں، اپنے اس موقف کے ساتھ یہ اعتراف بھی کیا کہ برسوں تک خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملک شام میں صورت حال اب بھی غیر مستحکم ہے۔
شام اور افغانستان سے متعلق یونین جماعتوں کا موقف
فریڈرش میرس نے ڈی پی اے کو بتایا، ''سی ڈی یو اور سی ایس یو میں ہمارا موقف طویل عرصے سے یہ رہا ہے کہ جرمنی میں شام اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو ملک بدر کر کے واپس ان کے وطن بھیجا جا سکتا ہے اور ایسا کیا بھی جانا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔‘‘
اس قدامت پسند جرمن سیاست دان نے مزید کہا کہ اب بہت زیادہ توجہ اس بات پر دی جانا چاہیے کہ موجودہ حالات میں شام سے یورپ آنے کی اجازت کس کو دی جانا چاہیے؟
انہوں نے کہا، ''میں کسی بھی صورت حال میں یہ دیکھنا پسند نہیں کروں گا کہ جرمنی میں شام سے آنے والے ایسے لوگ بھی موجود ہوں، جو بشار الاسد کے ملیشیا گروپوں کے ایسے ارکان ہوں، جو وہاں شدید نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔‘‘
واضح پیغام: سرحدوں سے فوری واپسی
کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سربراہ میرس نے کہا کہ ان کے مطابق ایسے تارکین وطن کے لیے پیغام بہت واضح ہونا چاہیے: ''ہم آپ کو سرحدوں سے ہی فوراﹰ واپس بھیج دیں گے۔‘‘ ساتھ ہی میرس نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں یورپی یونین کے دیگر تمام رکن ممالک کے ساتھ معاملات کو زیادہ مربوط اور ہم آہنگ بنانے کی بھی ضرورت ہو گی۔
جرمن حکام کے مطابق اس وقت ملک میں مقیم شامی باشندوں کی تعداد نو لاکھ 75 ہزار کے قریب ہے۔ ان کی بڑی اکثریت 2015ء سے جرمنی میں قیام پذیر ہے۔ ان میں سے تین لاکھ سے زائد شامی باشندوں کو تارکین وطن کے طور پر نچلے درجے کا تحفظ حاصل ہے اور ان کو جرمنی میں قیام کی اجازت دینے کی وجہ ان کا شام میں انفرادی سطح پر تعاقب اور جبر کا نشانہ بنایا جانا نہیں تھا۔
فریڈرش میرس نے یونین جماعتوں کی اس سیاسی سوچ کا اعادہ بھی کیا کہ جرمنی کو ''اپنی امیگریشن پالیسی میں سیاسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘‘
م م / ع ت (ڈی پی اے)
جرمن انتخابات 2025ء: چانسلرشپ کا امیدوار کون کون؟
جرمنی میں تیئیس فرورری کے عام انتخابات سے قبل تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں نے سربراہ حکومت کے عہدے یعنی چانسلرشپ کے لیے اپنے امیدواروں کے نام فائنل کر لیے ہیں۔ آئیے ان سیاستدانوں کے پروفائلز کا جائزہ لیں۔
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
اولاف شولس ، ایس پی ڈی (پیدائش: انیس سو اٹھاون)
سوشل ڈیموکریٹ شولس کے پاس کبھی بھی خود اعتمادی کی کمی نہیں رہی، وہ خود کو ایک مؤثر اور باشعور عملیت پسند رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی لاء فرم چلائی، اور پھر عشروں پر محیط اپنے سیاسی کیریئر میں ہیمبرگ میں حکومتی عہدوں سمیت وفاقی سطح پر وزیر محنت، وزیر خزانہ اور وفاقی جرمن چانسلر کے اہم ترین عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ لیکن اب انہیں رائے عامہ کے جائزوں میں کم عوامی مقبولیت حاصل ہے۔
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
فریڈرش میرس، سی ڈی یو (پیدائش: انیس سو پچپن)
قدامت پسند میرس گزشتہ نصف صدی میں جرمنی میں چانسلرشپ کے لیے سب سے عمر رسیدہ امیدوار ہیں۔ مغربی جرمنی کے دیہی زاؤرلینڈ سے تعلق رکھنے والے کٹر کیتھولک اور کاروباری امور کے وکیل میرس کے پاس کبھی کوئی عوامی عہدہ نہیں رہا۔ ان کا نجی کمپنیوں میں ملازمت کا ایک طویل کیریئر ہے، جس میں اثاثہ جات کے انتظامات کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشن، بلیک راک میں ایک عہدے پر فرائض کی انجام دہی بھی شامل ہے۔
تصویر: Ruffer/Caro/picture alliance
رابرٹ ہابیک، گرینز (پیدائش: انیس سو انہتر)
ہابیک اپنے مخصوص ہیئر اسٹائل اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ عوامی شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔ اس عملیت پسند سیاست دان کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ یہ ہابیک ہی تھے، جنہوں نے عوام کے سامنے حکومتی سیاسی فیصلوں کی وضاحت کرنے اور اپنے حکومتی شراکت داروں کے تکبر زدہ تشخص کو ختم کرنے کے لیے سادہ اور دلکش الفاظ تلاش کیے تھے۔ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے قبل وہ ایک مصنف، مترجم اور فلسفی رہے ہیں۔
تصویر: appeler/dpa/picture alliance
ایلیس وائیڈل، اے ایف ڈی (پیدائش انیس سو اناسی)
جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی ) کی شریک چیئر پرسن وائیڈل نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، چین میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی اور یورو اور نیٹو کے بارے میں شکوک و شبہات سے کام لیتی ہیں۔ وائیڈل اشتعال انگیزی اور خاص طور پر تارکین وطن کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کے لیے مشہور ہیں۔
سابق وزیر خزانہ لنڈنر نے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی، اپنے چھوٹے سے تشہیری کاروبارکی بنیاد رکھی اور وہ جرمن فضائیہ میں ایک ریزرو افسر بھی ہیں۔ وہ صرف 34 سال کی عمر میں اپنی نیو لبرل فری ڈیموکریٹ پارٹی کے چیئرمین بنے اور ابھی تک اس کے بلامقابلہ رہنما ہیں۔ ان کی شہرت سوشل میڈیا کے ماہر اور اسٹائلش انسان کے طور پر ہے اور وہ اسپورٹس کاروں سے اپنی محبت کے لیے جانے جاتے ہیں۔
تصویر: Hannes P Albert/dpa/picture alliance
سارہ واگن کنیشت، بی ایس ڈبلیو (پیدائش: انیس سو انہتر)
واگن کنیشت لیفٹ پارٹی کی ایک سابقہ سرکردہ شخصیت ہیں۔ وہ اکثر ٹاک شوز میں بطور مہمان شرکت کرتی ہیں اور عوامیت پسندانہ بیان بازی کی ماہر ہیں۔ وہ دوسرے سیاست دانوں کو احمق اور منافق قرار دیتی ہیں۔ وہ قدامت پسند سماجی اور بائیں بازو کی معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن مخالف پوزیشنوں کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ اپنی جماعت ’الائنس سارہ واگن کنیشت‘ پر مکمل غلبہ رکھتی ہیں۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ژان فان آکن، لیفٹ پارٹی (پیدائش: انیس سو اکسٹھ)
فان آکن مغربی جرمنی میں پیدا ہوئے، انہوں نے حیاتیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور 2004ء سے 2006ء تک اقوام متحدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کے انسپکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ وہ 2009 ء سے 2017 ء تک جرمن پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں لیفٹ پارٹی کے قانون ساز بھی رہ چکے ہیں۔ وہ بائیں بازو کی اس جماعت کے شریک چیئرمین بھی رہے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔