’جراثیم ادویات سے طاقت ور نہ ہو جائیں‘
19 مئی 2016برطانوی حکومت سے منظور شدہ اس جائزے میں تمام اقسام کی اینٹی بائیوٹکس کو بے اثر کر دینے والے ’سپر بگ‘ نامی بیکٹیریا کی افزائش کی روک تھام کے لیے اقدامات وضع کیے گئے ہیں۔ یہ بیکٹیریا اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کرتا ہے اور معمولی انفیکشن اور زخم مہلک بن جاتے ہیں۔
ماہر اقتصادیات اور جائزہ کمیشن کے سربراہ جم او نیل اس تحقیقی جائزے میں لکھتے ہیں، ’’ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو معاشی اور سلامتی کے خطرے کے طور پر دیکھا جائے اور تمام ممالک کے سربراہان اسے ترجیحی بنیادوں پر لیں۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ اس تحقیقی جائزے میں اینٹی بائیوٹکس کے بے جا استعمال کو کم کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بہتر تشخیص کے ذریعے غیر ضروری ادویات کے استعمال کو محدود کرنے اور عالمی سطح پر عوامی آگاہی مہم چلائے جانے کی سفارشات بھی کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں نئی جراثیم کش ادویات بنانے کے لیے محققین کی حوصلہ افزائی کی جانا چاہیے اور ایسے تحقیق نگاروں کو ریسرچ کے لیے مختص عالمی فنڈ میں سے انعامات دیے جاناچاہئیں۔
ان اقدامات پرآئندہ دس برسوں میں آنے والی لاگت کا تخمینہ 40 بلین ڈالر لگایا گیا ہے جو اس دستاویز کی رو سے اس نقصان سے کہیں کم ہے جو اس ابھرتے ہوئے مسئلے سے نہ نمٹنے کی صورت میں اٹھانا پڑے گا اور جلد یا بہ دیر حکومتوں کو اس کی قیمت ادا کرنی ہو گی۔ ماہر اقتصادیات اور مذکورہ تحقیقاتی جائزے کے سربراہ او نیل نے یہ بھی درج کیا ہے کہ 2014 کے وسط سے جب سے اس تحقیق کا آغاز ہوا ہے، لگ بھگ ایک ملین افراد کی اموات جراثیموں کے خلاف مزاحمت نہ ہونے کے سبب واقع ہوئیں ہیں۔
اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ جراثیموں کے خلاف مزاحمت نہ ہونا انسانوں کو ایک بار پھر اینٹی بائیوٹکس سے پہلے کے دور میں واپس لے جا سکتا ہے جب لاکھوں افراد ان ادویات کے دریافت ہونے سے پہلے وبائی امرض میں ہلاک ہوئے۔