جرمانوں اور قید کی دھمکیوں کے باوجود روسی مظاہرین پوٹن کے خلاف سرگرم
12 جون 2012تیز بارش کے باوجود ماسکو کے پُشکن اسکوائر میں ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونے والے مظاہرین مارچ کرتے ہوئے احتجاجی ریلی کے لیے مختص مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ کہا جا رہا ہے کہ رواں برس مارچ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد سے یہ اب تک کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ولادیمیر پوٹن تیسری مدت کے لیے ملک کے صدر بنے تھے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق دارالحکومت ماسکو کے مرکز میں مارچ کرتے ہوئے مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ ’پوٹن چلے جاؤ‘۔ ان مظاہرین کے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز بھی نظر آئے جن پر درج تھا کہ ’روس کا دن پوٹن کے بغیر‘۔ آج منگل کو وہاں رشیا ڈے منایا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں وہاں قومی تعطیل ہے۔
اس احتجاج میں شریک مظاہرین کی تعداد کے بارے میں متضاد اطلاعات مل رہی ہیں۔ منتظمین کے مطابق 50 ہزار سے زائد افراد اس مظاہرے میں شریک ہیں جبکہ پولیس کے مطابق یہ تعداد 20 ہزار ہے۔ دوسری طرف بائیں بازو کے اپوزیشن سربراہ سیرگئی اودالستوف کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ کے قریب لوگ صدر ولادیمیر پوٹن کے خلاف ہونے والے اس احتجاج میں شریک ہیں۔
اس احتجاج میں شرکت کے لیے لوگوں کو مطلع کرنے کے لیے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کو بھی استعمال کیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ شب روس میں جو پیغام سب زیادہ ٹویٹر پر بھیجا گیا وہ تھا (Everzone to Pushka at 12) یعنی ہر کوئی 12 بجے پُشکن اسکوائر پر پہنچے۔
تیسری مدت کے لیے صدر بننے کے بعد سے ولادیمیر پوٹن کی طرف سے اپوزیشن کے خلاف سخت نقطہ نظر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ایک متنازعہ بل پر دستخط کیے جس کے مطابق غیر قانونی مظاہروں میں شرکت پر لوگوں کو بھاری جرمانے کیے جا سکتے ہیں۔
پیر 11 مارچ کو پولیس نے اپوزیشن رہنماؤں کے رہائشی اپارٹمنٹس کی تلاشی لی اور وہاں سے کمپیوٹر، موبائل فون اور دیگر ذاتی اشیاء قبضے میں لے لیں۔ پولیس نے ان اپوزیشن رہنماؤں کو آج منگل کے روز پوچھ گچھ کے لیے پولیس اسٹیشنز میں پہنچنے کے لیے بھی کہا۔ اپوزیشن کے مطابق ان اقدامات کا مقصد مظاہرین کو خوفزدہ کرنا تھا تاکہ وہ آج ہونے والے مظاہروں میں شرکت سے باز رہیں۔
aba/aa (AFP, dpa)