’جرمنوں کو تو پتہ ہونا چاہیے، پھر بات کہاں تک جاتی ہے؟‘
مقبول ملک کیرسٹن کنِپ
26 اگست 2018
نازی دور کے جنگی مجرم ہانس فرانک کے بیٹے نکلاس فرانک کو اپنے ہم وطن جرمن باشندوں کی ’جمہوری قابلیتوں‘ پر شبہ ہے۔ ان کے بقول مہاجرین کے حالیہ بحران سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنوں نے اپنی تاریخ سے بہت کم سبق سیکھا ہے۔
اشتہار
نکلاس فرانک کے مطابق وہ اپنے نام کی وجہ سے بطور انسان اپنے بہن بھائیوں کی طرح شخصی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو سکتے تھے۔ ان کا ایک بھائی عادی شراب نوش بن گیا تھا اور ایک بہن نے خود کشی کر لی تھی۔ یہ دونوں اپنی اپنی ذات پر اس خاندانی نام کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، جو انہیں ان کے والد ہانس فرانک نے ورثے میں دیا تھا۔
نکلاس فرانک کے والد ہانس فرانک ایک ایسے نازی رہنما تھے، جنہیں نازیوں کے زیر قبضہ پولینڈ کا گورنر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ وہ ان بڑے نازی جنگی مجرموں میں سے بھی ایک تھے، جنہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن شہر نیورنبرگ کے تاریخی مقدمات کے بعد 1946ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ نکلاس فرانک اپنے والد کے اس نام کی وجہ سے ٹوٹے نہیں جو خود ان کے نام کا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے اس تاریخ کا سامنا کرنے کی کوشش کی، جو اب کسی حد تک خود ان کی اپنی کہانی بھی ہے۔ نکلاس فرانک ایک صحافی بھی ہیں اور ایک پبلیسسٹ بھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اپنے نام کے پیچھے چھپ بھی سکتے تھے لیکن انہوں نے ایک بڑی وجہ سے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’جرمنی میں نازی دور کے بارے میں اختیار کی جانے والی خاموشی زیادہ سے زیادہ حد تک میرے اعصاب پر سوار ہوتی جاتی تھی۔ اس حد تک کہ پھر میری برداشت ختم ہو گئی۔‘‘
انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان اور ایک حقیقی مجرم
نکلاس فرانک نے 1987ء میں ایک کتاب لکھی تھی، جس میں انہوں نے ایک بیٹے کے طور پر اپنے والد کے جرائم کا سامنا کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کتاب کو انہوں نے ’باپ: ایک میزانیہ‘ کا عنوان دیا تھا۔ اس کتاب میں انہوں نے جو کچھ لکھا، اس میں وہ اپنے والد سے جگہ جگہ مخاطب ہوتے ہوئے ’تم‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، جس سے بار بار کئی سوال پوچھے جاتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
6 تصاویر1 | 6
نکلاس فرانک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے ذریعے اپنے والد کو بعد از مرگ یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ ’ایک انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان لیکن درحقیقت ایک مجرم‘ تھے۔
نکلاس فرانک کے والد ہانس فرانک کے بارے میں نازی دور کے ان کے ساتھی رہنما کیا سوچ رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہانس فرانک کو ’پولینڈ کا قصاب‘ اور ’کراکاؤ کے یہودیوں کو قتل کرنے والا قصائی‘ کہتے تھے۔
ایسا ہانس فرانک کے مقبوضہ پولینڈ کی گورنری کے دور میں ہی ہوا تھا کہ تب مقبوضہ پولینڈ میں چار ایسے نازی اذیتی کیمپ قائم کیے گئے تھے، جن میں لاکھوں یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو گیس چیمبروں میں بھیج کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تب یہ جرم ایک ایسی مجرمانہ سوچ کے تحت کیا گیا تھا، جسے نازی دور میں ’یہودیوں کے مسئلے کا حتمی حل‘ قرار دیا گیا تھا۔
ہانس فرانک کے لیے جوزف گوئبلز کے الفاظ
ہانس فرانک نے مقبوضہ پولینڈ کے گورنر کے طور پر نازی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے کیا کچھ اور کس انداز میں کیا، اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ایک بار نازی دور کے پراپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز نے پولینڈ میں ہانس فرانک کے بارے میں کہا تھا، ’’ہانس فرانک وہاں حکومت نہیں حکمرانی کرتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ ہانس فرانک کو اپنی طاقت کا جو لامحدود نشہ تھا، اسی کو استعمال کرتے ہوئے اس نازی رہنما نے اپنی اہلیہ کو بھی اس بات کا قائل کر لیا تھا کہ وہ یہودیوں سے چھینے گئے زر و جواہر سے خود کو مزید امیر بنا لے۔
بے دریغ قتل عام کا حکم
ہانس فرانک کی شروع سے ہی یہ سوچ تھی کہ مقبوضہ پولینڈ کے تعلیمی، سائنسی، اور ثقافتی منظر نامے کو تباہ کر دیا جائے گا۔ پولینڈ پر قبضے کے کچھ ہی دیر بعد وارسا یونیورسٹی بند کر دی گئی تھی۔ کراکاؤ کی یونیورسٹی میں پولستانی طلبہ کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا تھا اور بہت سے پروفیسروں کو اذیتی کیمپوں میں پہنچا دیا گیا تھا، جہاں ان میں سے کئی ہلاک کر دیے گئے تھے۔
ہانس فرانک کے مقبوضہ پولینڈ کے بارے میں ارادے کیا تھے، یہ اس نازی رہنما نے اکتوبر 1939ء میں ہی اپنی ایک تحریر میں واضح کر دیا تھا: ’’اس خطے کو بے دریغ قتل و غارت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔‘‘ پھر مقبوضہ پولینڈ کو ایک قتل گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور وہاں پائے جانے والے تمام مادی اور خام وسائل جرمنی کی جنگی صنعت میں استعمال کے لیے نازی جرمنی پہنچائے جانے لگے۔
نازی ذہنیت ابھی پوری طرح مری نہیں
نکلاس فرانک کے خیال میں دوسری عالمی جنگ کے بعد ان کے والد کو تو پھانسی دے دی گئی تھی اور بہت سے نازی رہنما یا تو مارے گئے تھے یا انہوں نے خود کشی کر لی تھی۔ لیکن ان نازیوں کی موت کے ساتھ جرمنی میں ان کی سوچ پوری طرح مری نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’جرمنی میں نیشنل سوشلزم یا نازی سوچ ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔‘‘
نکلاس فرانک کی والدہ برگِٹے کا انتقال 1959ء میں ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ نازی دور کے بعد کے برسوں میں ان کی والدہ نے یہ تسلیم کرنے میں دیر نہیں کی تھی کہ انہیں بھی شدید احساس جرم تھا۔ نکلاس فرانک کے مطابق تب برگِٹے فرانک نے یہ بھی تسلیم کیا تھا، ’’جو کچھ ہوا وہ غلط اور ناانصافی تھا۔‘‘
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
مہاجرین کے بحران سے نسبت
نکلاس فرانک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ یورپ خاص طور پر جرمنی کو اپنے ہاں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے جس بحران کا سامنا ہے، وہ اس حقیقت کے ادراک کا بہترین موقع ہے کہ جرمن قوم ابھی تک اپنے اندر کیا کچھ لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا، ’’نازی دور میں جرمنی میں عام لوگوں میں پائی جانے والی سماجی ہمت اور بہادری کی کمی تھی۔‘‘
نکلاس فرانک کے بقول ماضی میں جرمنوں نے نازی حکمرانوں کی بات سنی تھی اور اس پر یقین بھی کیا تھا۔ آج بھی کئی جرمن باشندے اسی طرح کی سوچ کے حامل سیاسی عناصر کی باتوں پر توجہ دے رہے ہیں۔
’’یہی وہ پہلو ہے جو مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جرمنوں نے اپنی تاریخ سے بہت کم سیکھا ہے اور وہ پوری طرح جمہوریت کے اہل ابھی بھی نہیں ہیں۔‘‘
اب خود بھی بہت بوڑھے ہو چکے نکلاس فرانک کے مطابق اگر جرمن باشندے اپنے ماضی سے پوری طرح سبق سیکھتے اور اندرونی طور پر جمہوریت کے قائل ہوتے تو ان کا جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن سے رویہ اس سے مختلف ہوتا، جیسا کہ اب تک کئی شخصیات کی طرف سے متعدد مرتبہ دیکھنے میں آ چکا ہے۔
نکلاس فرانک نے اپنے انٹرویو کے آخر میں یہ بات زور دے کر کہی، ’’جرمنوں کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ اگر سماجی ہمت اور حوصلہ نہ ہو، سچ کے لیے کھڑا ہونے کا عمل ناقص یا نامکمل رہ جائے، تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اگر سماجی سطح پر عام لوگ بہادری کا مظاہرہ نہ کریں، تو نتیجہ گیس چیمبرز کی شکل میں نکلتا ہے۔ یہ بات ہم جرمنوں کو اس لیے پتہ ہونا چاہیے کہ ہم نے ہی اس ہمت کے فقدان کے باعث شدید ترین ظلم کیے تھے۔‘‘
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔