جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ جرمنوں کو جمہوریت کے دفاع کی خاطر کھڑا ہونا پڑے گا۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ نسل پرستی اور غیر ملکیوں سے خوف کی وجہ سے عالمی سطح پر جرمنی کی ساکھ کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جرمن شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ نسل پرستی کے خلاف جنگ میں زیادہ فعال کردار کریں۔ اتوار کے دن جرمن روزنامے بلڈ اَم زونٹاگ میں شائع ہونے والے ایک تازہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جرمنوں کو جمہوریت کا دفاع کرنے کی خاطر کھڑا ہونا چاہیے۔
ماس کا یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب مشرقی جرمن شہر کیمنٹز میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد کے بڑے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے مطابق، ’’بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اطمینانیت بہت زیادہ پھیل چکی ہے، جس پر ہمیں قابو پانے کی ضرورت ہے‘‘۔
میرا نازی باپ
03:03
ہائیکو ماس نے مزید کہا، ’’ہمیں صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہونا ہے اور آواز بلند کرنا ہے۔‘‘ ماس نے زور دیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جرمن شہری اس رویے کو ترک کریں اور عمل کریں۔
ماس نے اعتراف کیا کہ آج کی جرمن نسل آزادی میں پیدا ہوئی، جہاں قانون کا بول بالا ہے اور جمہوریت ہے، ’’ہمیں (ان آزادیوں کی خاطر) جدوجہد نہیں کرنا پڑی ہے۔‘‘
جرمن وزیر ماس کے مطابق کبھی کبھار جرمن اس تمام صورتحال کو انتہائی غیر سنجیدہ لے لیتے ہیں۔ انہوں نے تمام جرمن شہریوں سے مطالبہ کیا کہ وہ جرمنی کی عالمی ساکھ کو بچانے کی خاطر فعال ہوں جائیں۔
ہائیکو ماس نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’اگر آج ایک مرتبہ پھر ہماری سڑکوں پر لوگ ہٹلر کا مخصوص سلیوٹ کرتے ہیں تو یہ ہمارے ملک کے لیے بے عزتی کا باعث ہو گا۔‘‘
ہائیکو ماس نے کہا کہ تمام لوگوں کو دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف کھڑا ہونا ہو گا کیونکہ جرمن اس صورتحال کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں، ’’ہمیں نیو نازی اور یہودی مخالف جذبات کا دوبارہ خاتمہ کرنا ہو گا۔‘‘
دوسری طرف وفاقی وزیر انصاف کاترینا بارلے نے کہا ہے کہ جرمن شہر کیمنٹز کے مظاہروں کی تحقیقات میں یہ امر واضح کرنا ہو گا کہ اس شہر میں مظاہروں اور غیر ملکیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کا کتنا زیادہ اثرورسوخ ہے۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی اس خاتون وزیر نے کہا کہ جرمن معاشرے میں دائیں بازو کی نفرت انگیزی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
کیمنٹز میں ایک 35 سالہ جرمن کے قتل کے بعد عوامی سطح پر صورتحال بگڑ گئی تھی۔ اس قتل میں غیرملکی پس منظر کے حامل دو افراد ملوث بتائے گئے ہیں۔
ع ب / ا ا / خبررساں ادارے
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔