ایک تازہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ جرمن شہری ملکی خارجہ پالیسی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شمالی کوریا، روس اور ترکی سے زیادہ بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
اشتہار
کیوربر فاؤنڈیشن کے تحت کرائے گئے اس سروے میں جرمن خارجہ پالیسی کے لیے چینلجز کے بارے میں جرمن عوام سے رائے لی گئی ہے۔ اس فہرست میں جرمن باشندوں نے مہاجرین کے بحران کی وجہ سے لاحق تشویش کو ملک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ سروے کے مطابق 26 فیصد جرمن باشندوں نے سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی اتنی بڑی تعداد کی ملک میں موجودگی اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ملکی صلاحیت کی بابت خدشات کا اظہار کیا۔
امریکا اور امریکی صدر ٹرمپ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر نمایاں ترین موضوع رہا، جس کی بابت 19 فیصد جرمن باشندوں نے اپنے خدشات ظاہر کیے۔ 17 فیصد باشندوں نے ترکی اور فقط دس فیصد جرمنوں نے شمالی کوریا کو خطرہ قرار دیا جب کہ روس کو ملک کے لیے خطرہ سمجھنے والے جرمن باشندوں کی تعداد صرف آٹھ فیصد تھی۔
چین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ جملے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چبھتے ہوئے بیانات کے لیے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جملے انہوں نے چین کے لیے بھی کہے۔ ’چین نے امریکا کو تباہ کر دیا‘ کے بیان سے لے کر ’ آئی لو یو چائنہ‘ تک ٹرمپ کے تبصرے رنگا رنگ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ آئی لو یو چائنہ‘
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Harnik
’ چین ہمارے ملک کا ریپ کر رہا ہے‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا چین تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہم چین کو اپنا ملک برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کر رہا ہے۔‘‘
تصویر: Feng Li/AFP/GettyImages
’کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا‘
رواں برس اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا،’’ آپ جانتے ہیں کہ چین اور کوریا کی تاریخ ہزاروں سال اور کئی جنگوں پر محیط ہے۔ کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan
‘انہیں میکڈونلڈز لے جائیں‘
سن 2015 میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا،’’ اگر آپ سمارٹ ہوں تو چین سے جیت سکتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ ہم چین کے سربراہان کو سرکاری ڈنر دیتے ہیں۔ ہم انہیں اسٹیٹ ڈنر کیوں دیں؟ میں کہتا ہوں کہ انہیں میکڈونلڈز لے جائیں اور بھر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔‘‘
سن دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا،’’ میں نے چین کے بارے میں سینکڑوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے چینی لوگوں کے ساتھ بہت روپیہ بنایا ہے۔ میں چینی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ تاہم بعض افراد کا ماننا ہے کہ یہ انٹرویو کبھی ہوا ہی نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار چین ہے‘
سن 2012 میں ٹرمپ نے گلوبل وارمنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکا کے اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،’’ گلوبل وارمنگ کی تخلیق چین کے ہاتھوں اور چینی عوام کے لیے ہوئی تاکہ امریکی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں بے وقعت کیا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
6 تصاویر1 | 6
جنوری میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طرف تو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکا کے انخلا کا علان کر کے جرمنی میں تشویش کی لہر دوڑا دی اور ساتھ ہی ایران کے جوہری پروگرام کی توثیق سے متعلق متعدد متنازعہ بیانات پر بھی جرمنی میں کئی طرح کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے جرمنی کی تجارتی پالیسیوں اور نیٹو اتحاد کے لیے برلن حکومت کی کم مالی معاونت پر بھی تنقیدکی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان ان تمام موضوعات پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔
اسی تناظر میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، جو عموماﹰ انتہائی محتاط انداز سے بیانات دیتی ہیں، کو یہ تو کہنے پر مجبور کر دیا کہ برلن حکومت متقبل میں امریکا پر انحصار نہیں کر پائے گی۔ جرمن چانسلر کہہ چکی ہیں کہ یورپ کو اپنا مقدر خود اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا۔
ٹرمپ کی میرکل کے بارے میں رائے۔ تب اور اب
01:07
اکتوبر میں کرائے گئے اس سروے میں ایک ہزار پانچ بالغ جرمن شہریوں سے رائی لی گئی۔ اس سروے میں قریب 56 فیصد جرمن باشندوں نے امریکا کے ساتھ تعلقات کو’خراب‘ یا ’بہت خراب‘ قرار دیا۔
جرمن حکومت کی جانب سے بارہا کہا گیا ہے کہ جرمنی کو عالمی تنازعات میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، تاہم اس سروے کے مطابق 52 فیصد جرمن باشندوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جرمن پالیسی، یعنی جنگی تنازعات سے دوری، ہی پر کاربند رہنے کے حق میں رائے دی۔