جرمن دفتر شماریات کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں ترک وطن پس منظر کے حامل افراد کی تعلیم، روزگار اور آمدن کے حوالے سے صورت حال جرمنوں کی نسبت کافی خراب ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن دفتر شماریات ملک میں تارکین وطن کے انضمام کے حوالے سے رپورٹس بھی مرتب کرتا ہے۔ ایسی ہی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمن شہریوں کے مقابلے میں ملک میں بسنے والے ترک وطن پس منظر کے شہری تعلیم، روزگار اور آمدن کے حوالے سے کافی پیچھے ہیں۔ ادارے کے مطابق سن 2005 سے لے کر اب تک دونوں طرح کے شہریوں میں پائے جانے والے اس فرق میں بحیثیت مجموعی نمایاں تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔
اپنی تازہ رپورٹ میں وفاقی دفتر شماریات نے ملک میں بسنے والے اٹھارہ سے پچیس برس تک کی عمر کے تارکین وطن اور جرمن شہریوں کی تعلیمی قابلیت کا تقابل کیا ہے جس کے مطابق صرف چار فیصد جرمن شہری ایسے ہیں جو انٹرمیڈیٹ درجہ تک تعلیم حاصل نہیں کر پائے۔ ’اسکول پاس کرنے کا سرٹیفیکیٹ‘ حاصل نہ کر پانے والے جرمن شہریوں کے تناسب میں سن 2005 اور سن 2016 کے مابین کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی۔
تاہم اس حوالے سے تارکین وطن کے اعداد و شمار میں تبدیلی دیکھی گئی۔ سن 2005 میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل نہ کرنے والے غیر ملکی پس منظر کے افراد کی شرح قریب گیارہ فیصد تھی جو کہ سن 2011 میں کم ہو کر 8.3 فیصد رہ گئی تھی تاہم ایک ملین سے زائد مہاجرین کی آمد کے بعد یہ شرح سن 2016 میں بارہ فیصد سے تجاوز کر گئی۔
غیر ملکی پس منظر رکھنے والے افراد میں جرمنی میں نئے آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن بھی شمار کیے گئے ہیں اور ملک میں پہلے سے آباد ترک وطن پس منظر کے حامل جرمن شہری بھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جرمنی ہی میں پیدا ہونے والے غیر ملکی پس منظر کے حامل جرمن شہریوں میں یہ تناسب سن 2005 میں 6.7 ریکارڈ کیا گیا تھا جو کہ گیارہ برس بعد اب بھی اسی سطح پر برقرار ہے۔
دوسری جانب یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے والے غیر ملکی پس منظر کے افراد کی تعداد میں ایک دہائی کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اب جرمن شہری اور ترک وطن پس منظر کے حامل افراد تقریبا ایک ہی سطح پر ہیں۔
کتنے پاکستانیوں کو یورپ سے نکال دیا گیا؟
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
10 تصاویر1 | 10
روزگار
اس رپورٹ میں ایسا ہی تقابل روزگار اور ملازمتوں کے حوالے سے بھی کیا گیا۔ جرمنی میں غیر ملکی پس منظر رکھنے والے افراد میں سن 2005 میں بے روزگاری کی شرح قریب اٹھارہ فیصد تھی جو کہ سن 2016 میں کم ہو کر سات فیصد رہ گئی۔ اسی طرح بے روزگار جرمن شہریوں کی شرح بھی 2005ء میں 9.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو قریب ایک دہائی بعد محض 3.4 فیصد رہ گئی۔
ملکی اقتصادی ترقی کے باعث مجموعی طور پر دونوں طرح کے گروہوں میں بے روزگاری کی شرح میں اگرچہ کمی واقع ہوئی ہے تاہم شماریاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو اب بھی جرمن شہریوں کے مقابلے میں غیر ملکی پس منظر کے حامل افراد کو جرمنی میں روزگار ملنے کے امکانات کافی کم ہیں۔
آمدن
جرمنی میں روزگار کے حامل ایسے افراد کی، جن کے سطح غربت تک پہنچنے کے امکانات واضح ہیں، فیصدی تعداد میں گزشتہ دہائی کے دوران کوئی واضح تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ لیکن اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ غیر ملکی پس منظر رکھنے والے جرمن شہریوں اور مہاجرین کے ذرائع آمدن جرمن شہریوں کی نسبت کافی کم ہے۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘