جرمنی:’رضاکارانہ وطن واپسی اسکیم‘ میں مہاجرین کی عدم دلچسپی
شمشیر حیدر نیوز ایجنساں
21 دسمبر 2017
برلن حکومت نے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی رضاکارانہ وطن واپسی کی حوصلہ افزائی کے لیے مزید مراعات کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس برس رضاکارانہ طور پر واپس جانے والوں کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں نصف رہی۔
اشتہار
جرمنی میں سیاسی پناہ کے مسترد درخواست گزار تارکین وطن کی آبائی وطنوں کی جانب واپسی یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہیں میں رضاکارانہ وطن واپسی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ تاہم مالی معاونت میں اضافے جیسے اعلانات کے باوجود رضاکارانہ طور پر جرمنی سے چلے جانے والے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
مہاجرت اور ترک وطن کے وفاقی جرمن دفتر بی اے ایم ایف کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 میں رضاکارانہ طور پر جرمنی سے چلے جانے والے تارکین وطن کی تعداد سن 2016 کے مقابلے میں قریب نصف رہی۔ گزشتہ برس پچاس ہزار سے زائد تارکین وطن رضاکارانہ وطن واپسی کے منصوبوں کے تحت جرمنی سے چلے گئے تھے جب کہ اس برس ایسے افراد کی تعداد محض اٹھائیس ہزار کے قریب رہی ہے۔
کس ملک کے کتنے پناہ گزین رضاکارانہ وطن واپس لوٹے؟
بین الاقوامی ادارہ مہاجرت تارکین وطن کی رضاکارانہ وطن واپسی اور اپنے ملک میں دوبارہ زندگی شروع کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے رواں برس AVRR نامی اس منصوبے سے کن ممالک کے شہری زیادہ مستفید ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۱۔ البانیا
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے رضاکارانہ وطن واپسی اور آباد کاری کے منصوبے کے تحت اس برس کی پہلی ششماہی میں البانیا کے 4421 شہری وطن واپس لوٹے۔ سن 2016 میں اس منصوبے سے مستفید ہونے والے البانیا کے شہریوں کی تعداد اٹھارہ ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: DW/A. Muka
۲۔ عراق
شورش زدہ ملک عراق کے شہریوں میں رضاکارانہ وطن واپسی کا رجحان گزشتہ برس بھی موجود تھا جب قریب تیرہ ہزار عراقی شہری آئی او ایم کے اس منصوبے کے تحت واپس عراق چلے گئے تھے۔ اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران چار ہزار عراقی اس منصوبے سے مستفید ہوئے۔
تصویر: DW/B. Svensson
۳۔ ایتھوپیا
افریقی ملک ایتھوپیا کے تئیس سو شہری آئی او ایم کے رضاکارانہ وطن واپسی کے اس پروگرام میں حصہ لے کر اپنے وطن واپس گئے۔ گزشتہ پورے برس کے دوران اس منصوبے کے تحت سات ہزار ایتھوپین تارکین وطن اپنے ملک واپس لوٹے تھے۔
تصویر: IOM Ethiopia
۴۔ افغانستان
گزشتہ برس آئی او ایم کے اس منصوبے میں حصہ لینے والے افغان شہریوں کی تعداد سات ہزار سے بھی زائد رہی تھی۔ تاہم اس برس اس رجحان میں کچھ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سن 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران قریب اکیس سو افغان شہری رضاکارانہ طور پر وطن لوٹ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۵۔ سربیا
یورپی ملک سربیا کے مختلف ملکوں میں موجود تارکین وطن میں سے قریب سترہ سو افراد بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے تعاون سے واپس اپنے ملک لوٹے۔ گزشتہ برس ایسے سرب باشندوں کی تعداد قریب سات ہزار رہی تھی۔
تصویر: privat
۶۔ مقدونیا
مشرقی یورپ ہی کے ایک اور ملک مقدونیا کے پانچ ہزار شہریوں نے گزشتہ برس اس منصوبے سے استفادہ کیا تھا تاہم رواں برس کی پہلی ششماہی میں واپس وطن لوٹنے والے مقدونیا کے شہریوں کی تعداد پندرہ سو رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۷۔ پاکستان
پاکستانی تارکین وطن میں رضاکارانہ وطن واپسی کے رجحان میں اس برس اضافہ ہوا ہے۔ سن 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران قریب پندرہ سو پاکستانی رضاکارانہ وطن واپسی کے اس منصوبے سے مستفید ہوئے جب کہ گزشتہ پورے برس میں ایسے پاکستانیوں کی تعداد 1278 رہی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۸۔ سینیگال
مغربی افریقہ کے ملک سینگال سے تعلق رکھنے والے قریب ساڑھے تیرہ سو تارکین وطن بین الاقوامی ادارہ برائےمہاجرت کے شروع کردہ اس منصوبے کے تحت اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران واپس اپنے وطن لوٹ گئے تھے۔
تصویر: Reuters/L. Gnago
۹۔ یوکرائن
یورپی ملک یوکرائن کے ہمسایہ ملک روس سے کشیدہ تعلقات کے باعث یوکرائنی باشندوں میں یورپ کی جانب مہاجرت کا رجحان نوٹ کیا گیا تھا۔ تاہم اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران قریب تیرہ سو یوکرائنی رضاکارانہ طور پر واپس یوکرائن چلے گئے۔
تصویر: DW
۱۰۔ روس
آئی او ایم کے شروع کردہ رضاکارانہ وطن واپسی اور آبادکاری کے اس منصوبے سے مستفید ہونے والے روسی تارکین وطن کی تعداد اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران گیارہ سو سے زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
علاوہ ازیں اس برس جرمنی سے زبردستی ملک بدریوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک مقامی جرمن اخبار نے بی اے ایم ایف کے اعداد و شمار کے حوالے سے لکھا ہے کہ گزشتہ برس پچیس ہزار سے زائد تارکین وطن کو جرمنی سے ملک بدر کیا گیا تھا لیکن سن 2017 میں ملک بدریوں کی یہ تعداد بائیس ہزار ریکارڈ کی گئی۔
جرمن حکومت نے غیر قانونی مہاجرت کی روک تھام اور پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی وطن واپسی کے لیے اپنی کوششیں تیز کر رکھی ہیں۔ جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے حال ہی میں رضاکارانہ طور پر جرمنی سے جانے والے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے لیے مزید مراعات کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس فروری کے اواخر تک رضاکارانہ طور پر جرمنی سے چلے جانے والے خاندانوں کو تین ہزار جب کہ تنہا تارکین وطن کو ایک ہزار یورو تک کی اضافی مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔
بی اے ایم ایف کے اعداد و شمار کے برعکس تھوماس ڈے میزیئر نے دعویٰ کیا تھا کہ رضاکارانہ واپسی کے پروگرام کامیابی سے جاری ہیں۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وطن لوٹنے والے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی تعداد اس برس لیے بھی کم رہی ہے کیوں کہ زیادہ تر افراد گزشتہ برس ہی جرمنی سے چلے گئے تھے۔
کتنے پاکستانیوں کو یورپ سے نکال دیا گیا؟
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
10 تصاویر1 | 10
ملک بدریوں پر اختلافات
بی اے ایم ایف کے اعداد و شمار جرمن سیاسی جماعتوں میں تارکین وطن کی ملک بدریوں پر پائے جانے والے اختلافات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو اور آئندہ ممکنہ مخلوط حکومت میں شامل ہونے والی ایس پی ڈی ملک بدریوں سے متعلق مختلف رائے رکھتی ہیں۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری یقینی بنانے کے لیے انہیں حراستی مراکز میں رکھنے کی تجویز سے اتفاق نہیں کرتی۔ ایس پی ڈی کے ایک سیاست دان برکہارڈ لشکے نے تھوماس ڈے میزیئر کی اس تجویز کو اصل معاملے سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وفاقی حکومت ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری کا ایک جیسا طریقہ کار لاگو کرے۔
دوسری جانب سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والی سیاست دان ارمین شُسٹر کا کہنا ہے کہ اگر برلن حکومت کو مثال کے طور پر جرائم پیشہ تارکین وطن کی فوری ملک بدری کا اختیار حاصل ہو تو نہ صرف ملک بدریوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس صورت میں غیر قانونی مہاجرت کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی۔