جرمنی: اشتعال انگیزی کے الزام میں قانون ساز کی گرفتاری
31 اکتوبر 2023
جرمن ریاست باویریا کے رکن اسمبلی ڈینیئل ہیلمبا کے خلاف نازیوں جیسی علامت کا اظہار کرنے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ ان کا تعلق انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی سے ہے اور وہ طلبہ کی ایک تنظیم کے بھی رکن ہیں۔
اشتہار
جرمنی میں استغاثہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے پیر کے روز انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) سے تعلق رکھنے والے قانون ساز ڈینیئل ہیلمبا کو گرفتار کر لیا۔
22 سالہ نوجوان سیاستدان حال ہی میں باویریا کی ریاستی مقننہ کے لیے ہونے والے الیکشن میں منتخب ہوئے تھے۔ ان پر اشتعال انگیزی کے ساتھ ہی ممنوعہ تنظیموں کی علامتوں کے اظہار کا بھی الزام ہے، جس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ہلیمبا نے ایک تنظیم ''برشین شافٹ ٹیوٹونیا پراگ زو ورزبرگ'' کا رکن ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ گزشتہ ماہ حکام نے اسی تنظیم کے خلاف چھاپے کی کارروائی کی تھی۔ استغاثہ نے بتایا کہ انہیں اس بات کا شبہ ہے کہ اس گروپ کے احاطے میں نازی پارٹی سے وابستہ علامتیں اور دیگر اشیاء ہو سکتی ہیں۔
اس تنظیم کے چار دیگر ارکان سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔ جرمن قانون کے تحت غیر آئینی تنظیموں کی، نازی سواستیکا جیسی علامتوں کا اظہار غیر قانونی ہے۔
جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے کون؟
03:09
ہیلمبا نے الزامات کو مسترد کر دیا
ڈینیئل ہیلمبا کے وکیل ڈوبراوکو مینڈک نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
باویریا کی ریاستی مقننہ میں اے ایف ڈی گروپ کی چیئرپرسن کیٹرین ایبنر اسٹینر نے بھی ان کی گرفتاری پر تنقید کی اور استغاثہ کے اقدامات کو جمہوریت کے لیے ''فرد جرم'' قرار دیا۔
جرمن پارلیمان کے ارکان کو اس طرح کے معاملات میں عام طور گرفتاری کا استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ تاہم قانون سازوں کو قانون سازی کی مدت کے آغاز سے یہ سہولت میسر ہے جبکہ باویریا کی نئی ریاستی مقننہ پیر کی سہ پہر سے اپنا پہلا اجلاس منعقد کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ ہیلمبا باویریا کی مقننہ کے لیے منتخب ہونے والے سب سے کم عمر سیاستدان ہیں۔
جرمنی میں تارکین وطن کے مسائل اور معیشت سے متعلق خدشات کے ماحول میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی مقبولیت میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ آٹھ اکتوبر کو ریاست باویریا کے انتخابات میں اس جماعت کو 14.6 فیصد ووٹ حاصل ہوئے اور اس طرح یہ تیسرے نمبر پر رہی۔ قومی سطح پر اسے تقریباً 20 فیصد ووٹر کی حمایت حاصل ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے)
جرمن تاريخ کا ايک سياہ باب: یہودیوں کی املاک پر نازیوں کے حملے
نو اور دس نومبر 1938ء کو نازی جرمنی میں یہودی مخالف واقعات رونما ہوئے، جنہیں ’کرسٹال ناخٹ‘ یعنی ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات’ کہا جاتا ہے۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں اوراملاک پر حملوں کے نتیجے میں سڑکوں پر شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Schreiber
نو اور دس نومبرکی رات کیا ہوا تھا؟
نازی نیم فوجی دستے ’ایس اے‘ کی قیادت میں سامیت مخالف شہریوں کا مجمع جرمنی کی سڑکوں پر نکلا۔ مشرقی جرمن شہر کیمنٹس کی اس یہودی عبادت گاہ کی طرح دیگرعلاقوں میں بھی یہودیوں کی املاک پر حملے کیے گئے۔ اندازے کے مطابق صرف ایک رات میں یہودیوں کے زیر ملکیت کم ازکم ساڑھے سات ہزار کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا گیا اور سامان لوٹا گیا۔
تصویر: picture alliance
نام کے پیچھے کیا پوشیدہ ہےِ؟
جرمن یہودیوں کے خلاف ہونے والے اس تشدد کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ برلن میں اسے ’کرسٹال ناخٹ‘ (Night of Broken Glass) کہتے ہیں، جس کے اردو میں معنی ہیں ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات‘۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں، گھروں اور یہودیوں کے کاروباری مراکز پر منظم حملوں اور تباہی کے نتیجے میں جرمنی کی سڑکوں پر جگہ جگہ شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/akg-images
سرکاری موقف کیا تھا؟
یہ واقعات ایک جرمن سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے ایک سترہ سالہ یہودی ہیرشل گرنزپان کے ہاتھوں قتل کے بعد شروع ہوئے تھے۔ راتھ کو سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارت خانے میں قریب سے گولی ماری گئی تھی اور وہ ایک دن بعد انتقال کر گئے تھے۔ گرنزپان کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی لیکن کسی کو یہ نہیں علم کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کيا گيا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Imagno/Schostal Archiv
حملے اور تشدد کیسے شروع ہوا؟
سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے قتل کے بعد اڈولف ہٹلر نے اپنے پروپگینڈا وزیر جوزیف گوئبلز کو یہ کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل ہی کچھ مقامات پر ہنگامہ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ گوئبلز نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نازی یہودیوں کے خلاف اچانک شروع ہونے والے کسی بھی احتجاج کو نہيں روکیں گے۔ اس دوران جرمنوں کی زندگیوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی بھی ہدایات دی گئی تھیں۔
تصویر: dpa/everettcollection
کیا یہ تشدد عوامی غصے کا اظہار تھا؟
ایسا نہیں تھا، بس یہ نازی جماعت کی سوچ کا عکاس تھا، لیکن کوئی بھی اسے سچ نہیں سمجھ رہا تھا۔ نازی دستاویزات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان حملوں اور تشدد کا منصوبہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ یہ غیر واضح ہے کہ اس بارے میں عام جرمن شہریوں کی رائے کیا تھی۔ اس تصویر میں ایک جوڑا ایک تباہ حال دکان کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی رائے رکھتی تھی۔
اپنے نسل پرستانہ نظریات کی وجہ سے نازی چاہتے تھے کہ یہودی رضاکارانہ طور پر جرمنی چھوڑ دیں۔ اس مقصد کے لیے یہودیوں کو سڑکوں پر گھمایا جاتا تھا ور سرعام ان کی تذلیل کی جاتی تھی۔ اس تصویر میں یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ نازیوں کے ظلم و ستم سے پریشان ہو کر فرار ہونے والے یہودیوں پر مختلف قسم کے محصولات عائد کیے گئے اور اکثر ان کی املاک بھی ضبط کر لی گئی تھیں۔
تصویر: gemeinfrei
کیا نازی اپنے مقصد میں کامیاب رہے؟
ان پرتشدد واقعات کے بعد جرمن یہودیوں اور ملک چھوڑ جانے والوں کو نازیوں کے ارادوں کے بارے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں رہے تھے۔ تاہم اس طرح کے کھلے عام تشدد پر غیر ملکی میڈیا میں کڑی تنقید کی گئی۔ اس کے بعد یہودیوں پر لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنے لباس پر پیلے رنگ کا ستارہ داودی لگا کر باہر نکلیں گے۔
تصویر: gemeinfrei
حملوں کے بعد کیا ہوا؟
ان حملوں کے بعد نازی حکام نے یہودی مخالف اقدامات کی بوچھاڑ کر دی، جن میں ایک طرح کا ایک ٹیکس بھی عائد کرنا تھا۔ اس کا مقصد ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والے نقصان کی ادائیگی تھا۔ کرسٹال ناخٹ اور اس کے بعد کی دیگر کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق تقریباﹰ تیس ہزار یہودیوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا، کئی ہلاک ہوئے اور باقی یہودیوں کو جرمن علاقوں کو چھوڑ کر چلے جانے کے وعدے کے بعد آزاد کیا گیا تھا۔
تصویر: AP
کرسٹال ناخٹ کا تاریخ میں کیا مقام ہے؟
1938ء میں ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کا قتل عام شروع ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے۔ عصر حاضر کے ایک تاریخ دان کے مطابق کرسٹال ناخٹ کے دوران کی جانے والی کارروائیوں کا مقصد یہودیوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر تنہا کرنا تھا اور انہیں اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ جرمن علاقے چھوڑ دیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران91 یہودی شہری ہلاک ہوئے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔