1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن اعزازی جج نے اسکارف پر پابندی کو عدالت میں چیلنج کر دیا

14 جولائی 2024

جرمنی کی ایک مسلمان خاتون کو اعزازی جج کے طور پر کام کرنے سے روک دیا گیا تھا کیونکہ وہ سر پر اسکارف پہنتی ہیں، جو مبینہ طور پر غیر جانبداری کے تقاضے کی خلاف ورزی تھی۔ یہ معاملہ اب آئینی عدالت میں پہنچ گیا ہے۔

جرمنی: اعزازی جج نے اسکارف پر پابندی کو عدالت میں چیلنج کر دیا
جرمنی: اعزازی جج نے اسکارف پر پابندی کو عدالت میں چیلنج کر دیاتصویر: Frank May/picture alliance

سن 2015 میں جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے اساتذہ کے لیے اسکارف پر عام پابندی عائد کرنے کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کی پابندی جرمن آئین میں دی گئی مذہبی آزادی سے مطابقت نہیں رکھتی۔

اب تقریبا نو برس بعد وہی عدالت ایک بار پھر اس دیرینہ سیاسی اور سماجی مسئلے کو حل کر رہی ہے۔

ایک مسلمان اعزازی جج، جو مذہبی وجوہات کی بنا پر اسکارف پہنتی ہیں، نے جرمنی کی اعلیٰ ترین عدالت میں ایک آئینی شکایت درج کرائی ہے کیونکہ ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی ایک اعلیٰ علاقائی عدالت نے انہیں سن 2023 میں اعزازی جج کے عہدے پر فائز ہونے سے روک دیا تھا۔

جرمنی میں اعزازی جج (لے جج) فوجداری مقدمات کی مرکزی کارروائی میں حصہ لیتے ہیں اور زیریں فوجداری عدالت میں فیصلہ سازی کے دوران مرکزی جج کو مدد فراہم کرتے ہیں۔

غیر جانبداری بمقابلہ مذہبی آزادی

قبل ازیں علاقائی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران کسی اعزازی جج کی طرف سے پہنی جانے والی کوئی بھی مذہبی علامت ریاست کی غیر جانبداری کے تقاضے کی خلاف ورزی کرے گی۔

تاہم اس عدالتی فیصلے سے ایک نئی آئینی الجھن نے جنم لیا ہے اور وہ ہے، ''مذہب پر عمل کرنے کی آزادی اور اعزازی جج کے عہدے پر کام کرتے وقت ریاست کی غیر جانبداری کے تقاضوں کے درمیان ٹکراؤ کا پیدا ہونا۔‘‘

اب تقریبا نو برس بعد وہی عدالت ایک بار پھر اس دیرینہ سیاسی اور سماجی مسئلے کو حل کر رہی ہےتصویر: Lars Heidrich/Funke Foto Services/IMAGO

مسلمان اعزازی جج کا دلیل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ سر پر اسکارف پہننے کو مذہبی فریضہ سمجھتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سر ڈھانپنے والا ایک اعزازی جج معاشرے کے تنوع کی عکاسی کرتا ہے اور اس طرح عدالتی فیصلوں کی سماجی قبولیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

جرمنی: حجاب سے متعلق بحث پُر تشدد لڑائی کا سبب بن گئی

سارہ لنکن وکیل ہیں اور 'سوسائٹی فار سول رائٹس‘ سے منسلک ہیں۔ یہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جو عطیات اور رکنیت کی فیس کے ذریعے عام افراد کو مقدمات میں مالی اعانت فراہم کرتی ہے۔ سارہ لنکن کا اس کیس کے پس منظر میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہم یہاں اعزازی ججوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جن کا مقصد عدالت میں تمام معاشرے کی نمائندگی کرنا ہوتا ہے۔ یہ ججوں جیسا چوغہ نہیں پہنتے۔ ظاہر ہے یہ نجی افراد ہیں، جو ریاستی غیر جانبداری کے تقاضوں کے تابع نہیں ہیں۔‘‘

سارہ لنکن نے مزید کہا کہ 'سوسائٹی فار سول رائٹس‘ کا خیال ہے کہ اگر بعض گروہوں کو خارج کر دیا جائے تو نظام انصاف پر اعتماد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، '' سر پر اسکارف پہننے والی مسلم خواتین بھی جرمن معاشرے کا حصہ ہیں۔‘‘

مقدمہ لڑنے والی اعزازی جج کون ہیں؟

جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت میں اپنا مقدمہ لڑنے والی مسلمان اعزازی جج ایک تربیت یافتہ استانی ہیں اور وہ مذہبی انتہا پسندی، سامیت دشمنی اور نسل پرستی  کے خلاف لیکچر بھی دیتی ہیں۔

بطور استاد ان کا کام کرنے کا دورانیہ مختصر تھا کیوں کہ تب ایک بچے کی پیدائش کے بعد انہوں نے چھٹی لے لی تھی۔ لیکن انہوں نے سن 2006 میں دوبارہ ملازمت شروع کر دی۔ اسی سال ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا نے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کے مذہبی عقائد کے اظہار پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔

تب اس مسلم ٹیچر کو اسکارف کی وجہ سے کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس ٹیچر نے مختلف اسکولوں میں ملازمت کی کئی درخواستیں جمع کرائیں لیکن انہیں مسترد کر دیا گیا۔ چنانچہ سن 2008 میں انہوں نے مزید تربیت مکمل کی اور وہ فیملی تھراپسٹ بن گئی۔

 15 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، جب انہیں پہلی بار ایک جرمن ریاست نے ان کے عقیدے اور ظاہری شکل کی وجہ سے مسترد کر دیا تھا اور اس مسلمان خاتون کو کیریئر تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔

اب ایک اعزازی جج کے طور پر انہیں دوبارہ مسترد کیا گیا ہے اور وجوہات وہی پرانی ہیں۔ وہ امید کر رہی ہے کہ جرمن آئینی عدالت اس ملک میں ان کے شہری حقوق کی توثیق کرے گی۔

ا ا / ر ب (مارسیل فیورسٹے ناؤ)

جرمن ریاست میں کم عمر لڑکیوں کے اسکارف پہننےپر پابندی زیرغور

02:58

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں