1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتجرمنی

جرمنی افغانستان کے ساتھ ڈیپورٹیشن معاہدے کا خواہاں

جاوید اختر (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز کے ساتھ)
29 ستمبر 2025

جرمن وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ وہ افغان شہریوں کی وطن واپسی کا معاہدہ چاہتے ہیں اور برلن اس معاملے پر طالبان سے بات چیت شروع کرے گا۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن ارکانِ پارلیمان نے اس اقدام کی سخت تنقید کی ہے۔

افغان پناہ گزین جولائی میں اپنے وطن واپس لوٹتے ہوئے
برلن میں حکومت کی تبدیلی کے فوراً بعد افغان پناہ گزینوں کی تازہ ترین واپسیتصویر: Moritz Frankenberg/dpa/picture alliance

وفاقی جرمن وزیر داخلہ الیگزانڈر ڈوبرنٹ نے جرمن اخبار بلڈ ام زونٹاگ کو بتایا کہ جرمنی کابل سے براہِ راست مذاکرات کرے گا تاکہ ان افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا سکے جو جرمنی میں جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں یا جنہیں سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

ڈوبرِنٹ نے اخبار کو بتایا، ''کابل کو ڈیپورٹیشنز باقاعدگی سے ممکن ہونی چاہئیں! اسی لیے ہم اب کابل سے براہِ راست بات چیت کر رہے ہیں تاکہ مجرموں اور خطرناک افراد کو مستقبل میں مستقل طور پر واپس بھیجا جا سکے۔‘‘

رپورٹ کے مطابق، وزارتِ داخلہ کے حکام اکتوبر میں کابل جائیں گے تاکہ ان افغان شہریوں کی واپسی پر بات کی جا سکے جنہیں جرائم میں سزا ملی ہے یا سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ ملک بدری کے لیے خصوصی چارٹرڈ فلائٹس کے بجائے عام کمرشل پروازیں استعمال کی جائیں گی۔

جرمنی پہلے ہی جولائی میں درجنوں افغان باشندوں کو ملک بدر کر چکا ہے۔

طالبان کے افغانستان واپسی کا خیال ہی پریشان کن ہے، جرمنی جانے کی منتظر تین بچوں کی ماں

04:52

This browser does not support the video element.

ڈیپورٹیشن منصوبے کی سخت تنقید

انسانی حقوق اور پناہ گزینوں کی تنظیموں نے جرمنی کے اب تک کیے گئے دو ڈیپورٹیشن آپریشنز پر شدید تنقید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ افغانستان طالبان کی سخت گیر حکومت کے تحت غیر محفوظ ہے، جو 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آئے تھے۔

جرمنی کی گرین پارٹی اور لیفٹ پارٹی دونوں نے ڈوبرِنٹ کے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے منصوبے پر کڑی تنقید کی۔

گرین پارٹی کے رکن مارسل ایمرش نے کہا، ''طالبان کے ساتھ معاہدہ کرکے ڈوبرِنٹ خود کو ایک اسلام پسند تنظیم کا محتاج بنا رہے ہیں اور اس کا درجہ بڑھا رہے ہیں۔ یہ ان تمام لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو برسوں سے طالبان کے خلاف جمہوریت کے لیے لڑتے رہے ہیں۔‘‘

لیفٹ پارٹی کی رہنما کلارا بونگر نے اخبار رائنشے پوسٹ کو بتایا، ''جو کوئی طالبان سے مذاکرات کرتا ہے وہ دہشت گردوں کو جائز اور معمول کے مطابق ثابت کرتا ہے۔ یہ مذاکرات دراصل بڑے پیمانے پر ان ملک بدریوں کی تیاری ہیں جنہیں ایک ایسے ملک بھیجا جائے گا جہاں تشدد، سرعام سزائیں اور کوڑوں کی سزا روزمرہ کا معمول ہے۔ جو بھی ایسے معاہدے کرتا ہے وہ شریکِ جرم ہے۔‘‘

تاہم قدامت پسند جماعت، جس سے ڈوبرنٹ کا بھی تعلق ہے، کے نمائندے الیگزینڈر تھروم نے وزیرِ داخلہ کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے کہا، ''پناہ گزین جو یہاں جرائم کرتے ہیں انہیں اپنی سزا مکمل کرنے کے بعد ملک چھوڑنا ہوگا۔ یہ شامی اور افغانی افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ صرف اسی طرح ہمارا پناہ گزینوں کا نظام عوام میں قبولیت کے ساتھ برقرار رہ سکتا ہے۔‘‘

وفاقی جرمن وزیر داخلہ الیگزانڈر ڈوبرنٹ نے بتایا کہ جرمنی کابل سے براہِ راست مذاکرات کرے گا تاکہ ان افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا سکے جو جرمنی میں جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں یا جنہیں سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہےتصویر: Bernd von Jutrczenka/dpa/picture alliance

برلن کا کابل سے رابطہ

طالبان کے ساتھ رابطے متنازع ہیں کیونکہ جرمنی کے ان کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ طالبان اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آئے اور انسانی حقوق، خصوصاً خواتین کے خلاف سخت پابندیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر الگ تھلگ ہیں۔

اب تک برلن صرف قطر کے ذریعے ہی افغان مجرموں کو واپس بھیج سکا ہے کیونکہ جرمنی کے طالبان حکومت سے کوئی باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جرمنی اب تک قطر کی مدد سے صرف دو بار افغان شہریوں کو ملک بدر کر سکا ہے۔ اگست 2024 میں 28 مجرموں کو کابل بھیجا گیا تھا جبکہ جولائی میں 81 افغان مرد، جن پر قتل، جنسی جرائم، تشدد اور منشیات کے جرائم ثابت ہوئے تھے، واپس بھیجے گئے۔

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں