وفاقی جرمن حکومت دسمبر کے پہلے ہفتے میں ان افغان شہريوں کو واپس بھیجنا چاہتی ہے، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستيں مسترد ہوچکی ہيں۔ مہاجرین کے ليے سرگرم ادارے اور کارکنان نے اس خبر کی تصدیق کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پناہ کے ناکام درخوست دہندگان کی ملک بدری کے ليے ايک خصوصی پرواز چھ دسمبر کو جرمن شہر فرينکفرٹ سے روانہ ہو گی۔ گزشتہ ہفتے جرمن جریدے ’Der Spiegel‘ کی ایک رپورٹ میں بتايا گيا تھا کہ اسی روز يعنی چھ دسمبر کو پاکستان کے لیے بھی ایک خصوصی پرواز روانہ کی جائے گی، جس ميں پاکستانی مہاجرين کو روانہ کيا جانا ہے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔
وطن واپس بھیجے جانے والے مہاجرین کی تعداد ابھی واضح نہیں ہے۔ پناہ گزينوں کے ليے سرگرم تنظيم ’پرو ازیل‘ کے ايک اہلکار کے مطابق ’اس پرواز میں پچاس تک مہاجرین ہو سکتے ہیں۔‘ تاہم پچاس سے کم مہاجرین کی روانگی بھی ممکن ہے۔
جرمن وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال تارکین وطن کی ملک بدری کی تعداد دگنی ہوئی ہے۔ رواں سال اب تک 149 پاکستانی تارکینِ وطن کو واپس بھیجا جا چکا ہے، جبکہ گزشتہ سال 81 اور سن 2015 میں 22 پاکستانی تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا تھا۔
جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع
01:33
This browser does not support the video element.
اکتوبر اور ستمبر کے مہینے میں وفاقی اور صوبائی حکومت نے 14 افغان تارکین وطن کو واپس بھیجا تھا جبکہ دسمبر 2016 سے اب تک جرمنی سے سات پروازوں میں مجموعی طور پر 128 افراد کو افغانستان واپس بھیجا جا چکا ہے۔ افغانستان ميں سلامتی کی ابتر صورتحال کے باعث افغان مہاجرین کی ملک بدری جرمنی ميں ايک متنازعہ موضوع ہے۔