جرمنی: افغان تارکین وطن کا اب تک کا سب سے بڑا گروپ ملک بدر
4 جولائی 2018
جرمن حکام نے ایسے مزید 69 افغان شہریوں کو اپنے ملک واپس بھیج دیا ہے جن کی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں رد ہو چکی تھیں۔ یہ افغان شہری خصوصی پرواز کے ذریعے آج بدھ کے روز افغان دارالحکومت کابل پہنچے۔
اشتہار
جرمن شہر میونخ سے ایک جہاز ان 69 افغان شہریوں کو لے کر آج بدھ چار جولائی کو افغان دارالحکومت کابل پہنچا۔ یہ ان چند واقعات میں سے ایک ہے جب جرمنی سے افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو ایک ساتھ ملک بدر کیا گیا ہے۔ جرمن حکومت ایسے افراد کو ملک بدر کر کے واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیجنے میں تیزی لانے کا ارادہ رکھتی ہے جن کی پناہ کی درخواستیں جرمنی میں نا منظور ہو چکی ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق جرمن ریاست باویریا کے وزیر داخلہ نے ان افغان شہریوں کی جرمنی سے ملک بدری کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ افغانستان واپس بھیجے جانے والے کُل 69 افراد میں سے 51 اسی جرمن وفاقی ریاست میں رہائش پذیر تھے۔ یوآخم ہیرمن کے مطابق جرمنی کی وفاقی حکومت نے حال ہی میں افغانستان جلا وطن کیے جانے والوں کی تعداد کے حوالے سے پابندی ختم کرنے کی اجازت دی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران صرف انہی لوگوں کو جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس افغانستان بھیجا جاتا ہے جو جرمنی میں کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہوں۔
’تربیت اور کام دو، ملک بدر نہ کرو‘
02:00
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق افغانستان واپس بھیجے جانے والے افغان شہریوں کا یہ اب تک کا سب سے بڑا گروپ تھا جسے دسمبر 2016ء کے بعد ایک ساتھ وطن واپس بھیجا گیا۔ جرمنی نے افغان تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کے لیے براہ راست پروازوں کا سلسلہ دسمبر 2016ء میں ہی شروع کیا تھا۔ ڈی پی اے کے مطابق ان افراد کو ایک چارٹرڈ پرواز کے ذریعے کابل بھیجا گیا۔
اس سے پہلے تک افغان شہریوں کے جس سب سے بڑے گروپ کو وطن واپس بھیجا گیا تھا اس میں 34 افراد شامل تھے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ جرمن بدر کیے جانے والے افغانوں کی 14ویں خصوصی پروز تھی۔ بدھ کے روز بھیجی گئی فلائٹ میں موجود افراد سمیت اب تک مجموعی طور پر 300 سے زائد افغانوں کو جرمنی سے افغانستان واپس بھیجا جا جکا ہے۔
ا ب ا/ ش ح (ڈی پی اے، اے پی)
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔