جرمن شہر ڈوسلڈورف سے افغان مہاجرين کو ايک خصوصی پرواز پر منگل کو واپس افغانستان روانہ کيا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم جرمن رضاکاروں نے ملک سے افغان تارکين وطن کی جبری ملک بدری پر شديد تنقيد کی ہے۔
اشتہار
افغانستان میں مسلسل دہشت گردانہ حملوں کے باوجود جرمنی سے افغان تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ آج تئیس جنوری بروز منگل جرمن شہر ڈوسلڈورف سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے مزید ایسے افغان شہریوں کو کابل روانہ کیا جا رہا ہے، جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
سياسی پناہ کے متلاشی افراد کے حقوق کے ليے سرگرم غير سرکاری تنظيم ’پرو ازُول‘ نے اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ افغان دارالحکومت کابل کے ايک ہوٹل پر ہونے والا حملہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ طالبان عسکريت پسند ملک ميں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت حملے کرنے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ تنظيم کے مطابق جرمن حکام کا ايسا سمجھنا کہ افغانستان ميں محفوظ علاقے موجود ہيں، ايک غلط تاثر ہے۔ پرو ازول کی جانب سے يہ بيان منگل کو جاری کيا گيا۔
افغانستان ميں گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کی رات جنگجوؤں نے کابل کے پرتعيش ’انٹر کانٹينينٹل ہوٹل‘ پر حملہ کر ديا تھا۔ اس حملے ميں اب تک بائيس افراد کی ہلاکت کی تصديق ہو چکی ہے، جن میں کئی غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم جرمن رضاکاروں نے اسی تناظر ميں افغان تارکين وطن کی ملک بدری پر تنقيد کی۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dap/M. Jawad
6 تصاویر1 | 6
افغان مہاجرين کو واپس ان کے ملک لے جانے والی جرمنی سے يہ نويں خصوصی پرواز ہو گی۔ رضاکاروں سے موصولہ غير مصدقہ اطلاعات کے مطابق خصوصی جہاز ڈوسلڈورف سے آج شام کسی وقت اڑے گا اور کابل ميں اس کی آمد مقامی وقت کے مطابق کل صبح چھ بج کر پچاس منٹ پر متوقع ہے۔
پرو ازول نے اپنے بيان ميں برلن حکومت پر تنقيد کرتے ہوئے يہ بھی لکھا ہے کہ وفاقی جرمن دفتر خارجہ گزشتہ برس موسم خزاں کے بعد سے اب تک افغانستان میں سکیورٹی کی تازہ صورتحال پر کوئی رپورٹ پيش کرنے ميں ناکام رہا ہے۔ افغانستان ميں سکيورٹی کی تازہ ترين صورتحال پر مبنی رپورٹ کی عدم دستيابی کا مطلب يہ ہے کہ وفاقی جرمن دفتر برائے ہجرت و مہاجرين (BAMF) کے حکام اور عدالتيں، فيصلے لينے کے ليے اس ضمن ميں تازہ صورتحال سے واقف نہيں۔
دريں اثناء جرمن پوليس کی يونين GdP کے نائب سربراہ يورگ راڈک نے ملک بدری کے عمل کے ليے اضافی پندرہ ہزار اہلکاروں کا مطالبہ کيا ہے۔ صوبہ باويريا کے ايک ريڈيو اسٹيشن سے بات چيت کے دوران انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال 243 مرتبہ نہ صرف افغانستان بلکہ مغربی افريقہ اور بلقان خطے سے تعلق رکھنے والے سينکڑوں مہاجرين اور تارکین وطن کو مختلف گروپوں ميں ملک بدر کيا گيا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل ميں پوليس اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسی ليے يہ اضافی افرادی قوت درکار ہے۔
فرینکفرٹ میں ملک بدریوں کے خلاف سینکڑوں افراد کا مظاہرہ