جرمن پولیس نے پرتشدد کارروائی میں ملوث ہونے پر ایک افغان مہاجر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ حکام نے بتایا ہے کہ یہ واقعہ جمعے کے دن وسطی جرمن شہر فُلڈا میں رونما ہوا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ وسطی شہر فلڈا میں ایک افغان مہاجر نے ایک بیکری پر حملہ کیا تو پولیس نے جوابی کارروائی میں فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں وہ مارا گیا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق انیس سالہ افغان مہاجر نے علی الصبح ایک بیکری پر پرتشدد کارروائی کی تھی۔
’نئے تصورات کی سرزمین‘ کی نئی ماڈل سابق افغان مہاجر
02:27
پولیس کے مطابق پہلے اس نوجوان مہاجر نے ڈیلیوری کرنے والے ایک ٹرک ڈرائیور پر حملہ کیا، جس کے بعد اس نے بیکری کی کھڑکیوں کو توڑنے کی کوشش شروع کر دی۔
استغاثہ کے مطابق جب پولیس جائے وقوعہ پہنچی تو مشتبہ حملہ آور نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ پولیس کی طرف خبردار کرنے کے باوجود بھی جب اس مہاجر کا طیش ختم نہ ہوا تو پولیس نے فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گیا۔
جرمن صوبے ہیسے کے حکام نے بتایا ہے کہ اس حملے کے محرکات اور حالات ابھی واضح نہیں ہو سکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس پرتشدد واقعے کی چھان بین شروع کر دی گئی ہے اور اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اے ایف پی نے استغاثہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ آیا اس حملے کے پیچھے کوئی سیاسی محرکات تھے۔
مہاجرین کے بحران کے نتیجے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کے جرمنی آنے کے بعد اس ملک میں کئی پرتشدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
کچھ واقعات میں ان حملوں کی ذمہ داری مہاجرین اور تارکین وطن پر بھی عائد کی گئی ہے۔ اس تناظر میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
ناقدین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں میرکل کی سیاسی جماعت کی عوامی حمایت میں کمی بھی وقوع پذیر ہوئی۔ جرمنی میں دائیں بازو کے نظریات کی عوامی مقبولیت کی ایک وجہ مہاجرین کے بحران کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔
مہاجرت مخالف بیانیے کی وجہ سے اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی جدید جرمنی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمان میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ع ب / ع ت / اے ایف پی
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔