جرمنی کا کہنا ہے کہ جمہوریت مخالف خطرات سے نمٹنے کے لیے امریکا اور جرمنی کو ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے منگل نو مارچ کو کہا کہ امریکا میں نئی انتظامیہ کے آنے کے بعد سے دونوں ملک اپنے رشتے بہتر کرنے کی جانب گامزن ہیں اور برلن کو امید ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ ایک نیا معاہدہ طے پا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور اقتدار میں دونوں ملکوں کے درمیان رشتے مشکلات سے دو چار رہے اس لیے ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ کے دور میں نیٹو پر خرچ کرنے، روسی گیس پائپ لائن اور تجارت سے متعلق یورپی یونین کی پالیسیوں کے حوالے سے امریکا،جرمنی پر مسلسل دباؤ ڈالتا رہا تھا۔
امریکا کے 'بروکنگس انسٹیٹیوشن' کے ایک پروگرام سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے امریکی سامعین سے کہا، ''جرمنی آپ کے ساتھ ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو بیرونی ممالک میں جمہوری اصلاحات، دفاع، اور روس اور چین کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی اپنانے جیسے امور پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے کورونا وائرس کی وبا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیوں ملکوں کے ساتھ ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اختلافات کم کر کے ایک ساتھ آنے سے ہی بات بنتی ہے اور، ''جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ آمریت ایسے مسائل سے نمٹنے کا بہتر طریقہ'' ان کے لیے اس میں سبق ہے۔
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
9 تصاویر1 | 9
ان کا کہنا تھا، ''ماسکو اور بیجنگ کی جانب سے سول سوسائٹی کے خلاف ہونے والے اقدامات اور ان دونوں ملکوں کی طرف سے عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں پر ہم نے کارروائی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ پابندیاں عائد کرنے جیسی دیگر امور پر دونوں ملکوں کا موقف متحد ہوگا جو گزشتہ چار برسوں کے دوران ممکن نہیں تھا۔
ٹرمپ کے جانے کے باوجود نئی امریکی حکومت کا بھی اس بات پر اصرار ہے کہ نیٹو کے رکن ممالک اس پر اپنے خرچے میں اضافہ کریں اور اس نے اس مطالبے کو دہرایا بھی ہے۔ اس پر جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ جرمنی نے سن 2014 سے لے کر اب تک اپنے دفاعی بجٹ میں
پچاس فیصد کا اضافہ کیا ہے اور جس، ''راستے کو اس نے اختیار کیا ہے اس پر وہ چلتا رہے گا۔''
ڈونلڈ ٹرمپ کے جرمنی کے بارے میں بیانات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور جرمنی پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے چانسلر میرکل کو ’عظیم‘ بھی کہا ہے اور ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ برلن حکومت امریکا کی ’مقروض‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
کبھی ایسا تو کبھی ویسا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
’عظیم‘
ٹرمپ نے 2015ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جرمنی خاموشی سے رقم جمع کرنے اور دنیا کی ایک عظیم رہنما میرکل کے سائے میں قسمت بنانے میں لگا ہوا ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Schreiber
بہت برا
’’جرمن برے ہوتے ہیں، بہت ہی برے۔ دیکھو یہ امریکا میں لاکھوں گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ افسوس ناک۔ ہم اس سلسلے کو ختم کریں گے۔‘‘ جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک سربراہ اجلاس کے دوران دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/E. Vucci
کچھ مشترک بھی
ٹرمپ نے مارچ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’ ٹیلفون سننے کی بات ہے، تو میرے خیال میں جہاں تک اوباما انتظامیہ کا تعلق تو یہ چیز ہم میں مشترک ہے۔‘‘ ان کی اشارہ ان الزامات کی جانب تھا، جو وہ ٹیلیفون سننے کے حوالے سے اوباما انتظامیہ پر عائد کرتے رہے ہیں۔ 2013ء میں قومی سلامتی کے امریکی ادارے کی جانب سے میرکل کے ٹیلیفون گفتگو سننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد جرمنی بھر میں شدید و غصہ پایا گیا تھا۔
تصویر: Picture alliance/R. Sachs/CNP
غیر قانونی
’’میرے خیال میں انہوں نے ان تمام غیر قانونی افراد کو پناہ دے کر ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان تمام افراد کو، جن کا تعلق جہاں کہیں سے بھی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بات ایک جرمن اور ایک برطانوی اخبار کو مشترکہ طور پر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
’مقروض‘ جرمنی
ٹرمپ نے 2017ء میں میرکل سے پہلی مرتبہ ملنے کے بعد کہا تھا، ’’جعلی خبروں سے متعلق آپ نے جو سنا ہے اس سے قطع نظر میری چانسلر انگیلا میرکل سے بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ جرمنی کو بڑی رقوم نیٹو کو ادا کرنی ہیں اور طاقت ور اور مہنگا دفاع مہیا کرنے پر برلن حکومت کی جانب سے امریکا کو مزید پیسے ادا کرنے چاہیں۔‘‘
تصویر: Picture alliance/dpa/L. Mirgeler
منہ موڑنا
امریکی صدر نے جرمن حکومت کے داخلی تناؤ کے دوران اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’جرمن عوام تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں، جس نے مخلوط حکومت کو مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے، اپنی قیادت کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں افراد کو داخل کر کے یورپی سطح پر بہت بڑی غلطی کی گئی ہے، جس سے یورپی ثقافت پر بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/L. Marin
7 تصاویر1 | 7
توازن برقرار رکھنے کی برلن کی کوشش
جرمن وزیر خارجہ نے اپنے خطاب کے دوران بحیرہ بالٹک سے گزرنے والی روسی گیس پائپ لائن نارڈ اسٹیم 2 کے تنازعے کا ذکر نہیں کیا۔ واشنگٹن کا ماننا ہے کہ اس گیس پائپ لائن سے جرمنی توانائی کے لیے پوری طرح سے روس کے مرہون منت ہو کر رہ جائے گا۔
اشتہار
روس سے جرمنی تک گیس فراہم کرنے کے لیے گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ تقریبا تکمیل کے مراحل میں ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اس گیس پائپ لائن کا دفاع کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا کہ جرمنی اس گیس پائپ لائن منصوبے کو ترک کر کے امریکا سے توانائی خریدنے کا معاہدہ کر لے۔
تاہم اس کے ساتھ ہی جرمن حکومت نے اس حوالے سے امریکی تشویشات کو کم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ حال ہی میں جرمنی نے افغانستان میں اپنی فوجوں کے انخلا کے منصوبے میں توسیع کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس نے ساؤتھ چائنا سی میں بھی جہاز بھیجنے کے اپنے ایک منصوبے کا اعلان کیا ہے جہاں امریکی دعوے کے بقول چین آزادانہ نقل و حرکت کے لیے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، روئٹرز)
سونے سے بھری ہیں ان ملکوں کی تجوریاں
گزشتہ چند سالوں سے دنیا کے پہلے دس مرکزی بینکوں میں سونے کے ذخائر میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے خزانے بھرے ہوئے ہیں کتنے سونے سے
یورپ میں سب سے زیادہ سونا جرمنی کی ملکیت جرمنی ہے۔ اس ملک کے پاس 3371 ٹن سونا موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance / dpa
1۔ امریکا
سب سے زیادہ سونے کے ذخائر رکھنے والے ممالک کی فہرست میں نمبر ایک پر امریکا ہے۔ امریکا کے مرکزی بینک کے پاس 8133.5 ٹن سونا ہے۔ مصنف: اپووروا اگروال (ب ج، ع ا)