جرمنی میں الیکشن کے بعد گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں کی اولین ملاقات ہوئی ہے۔ جرمنی کی مستقبل کی حکومت میں ان دونوں جماعتوں کا کردار بہت اہم ہو گا اسی لیے انہیں ’کنگ میکرز‘ کہا جا رہا ہے۔
اشتہار
گرینز اور فری ڈیموکریٹس رہنماؤں کی اس ملاقات میں مستقبل کی مخلوط حکومت میں شمولیت کے مشترکہ پہلوؤں پر غور کیا گیا۔ چھبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) ایک قلیل سے برتری کے ساتھ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے اس کے بہت ہی قریب کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) ہے۔
ایس پی ڈی کو 25.7 فیصد جبکہ سی ڈی یو کو 24.1 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اسی طرح گرینز 14.8 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے جبکہ فری ڈیموکریٹس 11.5 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں سے جو بھی حکومت تشکیل دیتی ہے، اسے گرینز اور فری ڈیموکریٹس کی حمایت لازمی چاہیے ہو گی۔ دوسرا آپشن ایس پی ڈی اور سی ڈی یو ہیں اور یہ دونوں جماعتیں مل کر بھی 2017ء مخلوط حکومت تشکیل دے سکتی ہیں۔
اس ملاقات کے بعد فری ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر کرسٹیان لِنڈنر نے پارٹی کے جنرل سیکرٹری فولکر ویسینگ اور گرین پارٹی کے دو رہنماؤں انالینا بیئربوک اور رابرٹ ہابیک کے ساتھ ایک تصویر انسٹاگرام پر جاری کی ہے۔ اس تصویر کا عنوان ہے، 'ایک نئی حکومت کی تلاش میں‘۔ لنڈنر نے مزید لکھا،''ہم مشترکہ نکات کی تلاش میں ہیں اور اپنے اختلافات کو رابطوں کے پلوں سے ہموار کر رہے ہیں، یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے۔‘‘
ان دونوں پارٹیوں کے مرکزی رہنماؤں کی ملاقات کی تفصیلات کو عام نہیں کیا گیا۔
کنگ میکرز
الیکشن کے نتائج کے بعد سے سیاسی مبصرین گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کو 'کنگ میکرز‘ قرار دے رہے ہیں۔ یہ مخلوط حکومت کے تمام دستیاب تین آپشنز میں اہم ہیں۔ دونوں بڑی جماعتیں ان دونوں کی حمایت کی متلاشی ہیں۔
سی ڈی یو کے آرمین لاشیٹ بھی حکومت تشکیل دینے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہوں نے ابھی ایک دن قبل کہا کہ وہ اگلے دنوں میں مخلوط حکومت تشکیل دینے کے لیے ممکنہ ساتھی جماعتوں سے بات چیت شروع کرنے والے ہیں۔
حکومتی تشکیل کے حوالے سے کرسٹیان لنڈنر انتخابی نتائج کے بعد ایک مذاکرے میں کہہ چکے ہیں کہ پہلے دونوں بڑی پارٹیوں کو مل بیٹھ کر حکومت سازی کو زیربحث لانا چاہیے۔
2017ء کے انتخابات کے بعد سی ڈی یو نے گرینز اور ایف ڈی پی کے ساتھ حکومتی اتحاد بنانے کی کوشش کی تھی تاہم اس وقت ایف ڈی پی یہ کہتے ہوئے مذاکراتی عمل سے الگ ہو گئی تھی کہ وہ حکومت کا تیسرا پہیہ نہیں بننا چاہتی۔
جرمن الیکشن: مسرت، مایوسی، بے چینی
حالیہ جرمن الیکشن کے نتائج کو حیران کن اور شاندار قرار دیا گیا ہے۔۔ اس الیکشن کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے صدر دفاتر میں گہما گہمی اور نتائج کے وقت مسرت اور مایوسی کا اندازہ درج ذیل تصاویر سے لگایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Maja Hitij/Getty Images
ایس پی ڈی کی شادمانی
برلن میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈکوارٹر وِلی برانٹ ہاؤس میں انتخابی نتائج کے اعلان پر بڑی گہما گہمی پیدا ہوئی۔ ابھی تک یہ پارٹی الیکشن میں پچیس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کامیابی کو پارٹی میں بہاریہ تبدیلی قرار دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اگلے جرمن چانسلر کا تعلق ایس پی ڈی سے ہوتا ہے۔
تصویر: Maja Hitij/Getty Images
شولس حکومت کے خواہاں
الیکشن کے نتائج سامنے آنے پر ایس پی ڈی کے چانسلر کے امیدوار اولاف شولس اس تاثر میں مبتلا ہیں کہ وہ اس منصب کے اہل ہیں۔ شولس کا کہنا ہے کہ لوگ تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور الیکشن کے نتائج سے ان کی یہ خواہش واضح ہے۔
تصویر: Lisa Leutner/AP/picture alliance
سی ڈی یو میں افسوس کی کیفیت میں
الیکشن 2021 کے ابتدائی نتائج کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے لیے صدمے سے کم نہیں۔ سی ڈی یو اور اس کی حلیف کرسچین سوشل یونین کے لیے یہ نتائج انتہائی مایوس کن رہے۔ ان کے اشتراک کے بعد سے یہ سب سے خراب انتخابی نتیجہ تھا۔ ان دونوں پارٹیوں نے مشترکہ طور پر پچیس فیصد ووٹ حاصل کیے۔ سن 2017 کے مقابلے میں حاصل کردہ ووٹوں میں یہ کمی آٹھ فیصد کے قریب ہے۔
تصویر: Ina Fassbender/AFP/Getty Images
شکست سے دوچار امیدوار
کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے چانسلر کے امیدوار آرمین لاشیٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن میں پارٹی کی کمزور حیثیت نے ایک غیرمعمولی سیاسی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یونین کے لیے ووٹ حقیقت میں بائیں بازو کی قیادت میں بننے والی ممکنہ وفاقی حکومت کے بھی خلاف ہے اور اس تناظر میں وہ حکومت تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
تصویر: Fabrizio Bensch/REUTERS
گرین پارٹی میں پرجوش ماحول
گرین پارٹی کے صدر دفتر میں سینئر سیاستدان ریناٹے کیوناسٹ بھی انتخابی نتائج کے بعد لوگوں کے ساتھ ہاتھ ہلاتی دکھائی دیں۔ پارٹی کے صدر دفتر میں ماحول دوست سیاستدانوں اور ان کے حامیوں میں بہت جوش پایا گیا۔ الیکشن میں گرین کو پندرہ فیصد کے لگ بھگ ووٹ ملے ہیں۔ یہ اس پارٹی کو اب تک ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔ اس پارٹی کے بغیر مخلوط حکومت کی تشکیل قریب ناممکن ہو گی۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ایف ڈی پی بھی خوش لیکن زیادہ نہیں
فری ڈیموکریٹک پارٹی نے انتخابی نتائج پر ملا جلا لیکن مسرت کا حامل تاثر دیا ہے۔ اس پارٹی کو گیارہ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ بظاہر اس کے ووٹ کم و بیش سابقہ الیکشن کے مساوی ہیں۔ گرین پارٹی کی طرح ایف ڈی پی بھی حکومت سازی میں نہایت اہم ہے۔ یہ سی ڈی یو یا ایس پی ڈی کے ساتھ مخلوط حکومتی اتحاد کا حصہ بن سکتی ہے۔
تصویر: Sebastian Kahnert/dpa/picture alliance
لیفٹ پارٹی میں مایوسی
انتخابی نتائج سے لیفٹ پارٹی پر اداسی طاری ہے۔ پارٹی کی سربراہ سوزانے ہیننگ ویلزو کا کہنا ہے کہ نتیجہ پارٹی کے لیے ایک دھچکا ہے۔ یہ پارٹی محض پانچ فیصد ووٹ حاصل کر سکی۔ جرمن پارلیمنٹ میں نشست کے لیے پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنا لازم ہوتا ہے۔
تصویر: Cathrin Mueller/REUTERS
اے ایف ڈی کے لیے بھی مایوس کن نتیجہ
انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ کے نائب سربراہ بیٹرکس فون اشٹورخ نے انتخابی نتیجے کو مایوس کن قرار دیا۔ اس پارٹی کو گیارہ فیصد ووٹ ملے جو سابقہ الیکشن سے کم ہیں۔ سن 2017 میں اے ایف ڈی کو 12.6 فیصد ووٹ ملے تھے۔ سابقہ پارلیمان میں یہ تیسری بڑی سیاسی جماعت تھی۔ دوسری جانب پارٹی کی شریک لیڈر ٹینو شروپالا نے نتائج کو مستحکم خیال کیا ہے۔
تصویر: Ronny Hartmann/AFP/Getty Images
اے ایف ڈی پارٹی کے خلاف احتجاج
انتخابی نتیجے کے اعلان کے بعد انتہائی دائیں بازو کی قدامت پسند سیاسی جماعٹ آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ کے خلاف لوگوں نے احتجاج بھی کیا۔ پارٹی کی قیادت جہاں اپنے کارکنوں کے ساتھ کھڑی تھی وہاں باہر لوگ احتجاجی بینرز لیے کھڑے تھے، ایک بینر پر لکھا تھا کہ ’فاشسٹوں کی کوئی سیاسی جماعت نہیں‘۔
تصویر: Julian Stratenschulte/dpa/picture alliance
پولنگ میں تاخیر
جرمن دارالحکومت میں لوگوں کے جذبات کی وجہ سے افراتفری بھی دیکھی گئی۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر لوگ آخری وقت پر بھی ووٹ ڈالنے کے منتظر تھے۔ بیلٹ پیپرز کی کمیابی بھی دیکھی گئی۔ اس کے علاوہ برلن میراتھن کی وجہ سے بھی سڑکیں بند تھیں اور لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچنے میں دقت کا سامنا کرنا پرا۔ بعض ووٹرز کو ایک گھنٹے سے زائد ووٹ ڈالنے کی خاطر قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ گرینز اور ایف ڈی پی کے سیاسی نظریات بھی ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ چار سال قبل جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن ماہر کی مداخلت کے بعد سی ڈی یو اور ایس پی ڈی مل کر حکومت بنانے پر راضی ہوئی تھیں۔