جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل گروپ Sturmbrigade 44 پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا گیا، جب گزشتہ برس اس گروپ کے ممبران کے خلاف متعدد چھاپے مارے گئے تھے۔
اشتہار
جرمن پولیس کی طرف سے تین صوبوں میں Sturmbrigade 44 نامی انتہائی دائیں بازو کے خیالات کا پرچار کرنے والے گروپ کے ممبران کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔
حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے منگل کے دن اس گروپ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عندیہ دیا کہ اس گروپ کے ممبران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
یوں اس گروپ کے ممبران کے اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے اور پراپیگنڈا مواد ضبط کر لیا جائے گا۔ ساتھ ہی دائیں بازو کے انتہاپسندانہ ڈھانچے کے خلاف مزید شواہد اکٹھے کیے جائیں گے۔
جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی ’رائشس بُرگر تحریک‘
یہ تحریک نہ صرف کورونا وائرس کے حوالے سے عائد پابندیوں کو نہیں مانتی بلکہ جرمن حکومت کے آئینی جواز کو بھی مسترد کرتی ہے۔ یہ تحریک کیا ہے اور جرمن حکومت اس کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہے؟
تصویر: picture-alliance/chromorange/C. Ohde
یہ تحریک کرتی کیا ہے؟
یہ تحریک ٹیکس اور جرمانے ادا کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس میں شامل افرد اپنی ذاتی املاک کو جرمن حکومت کے عمل دخل سے باہر تصور کرتے ہیں۔ نہ تو جرمن آئین کو مانتے ہیں اور نہ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ اپنے پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس تک خود بناتے ہیں۔ عدالتوں میں مسلسل کیس دائر کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/SULUPRESS/MV
یہ کتنا بڑا خطرہ ہیں؟
اس تحریک کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا تھا اور اس کا کوئی رہنما نہیں۔ جرمن خفیہ ادارے کے مطابق اس تحریک کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور تقریباً انیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے 950 انتہائی دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی لسٹ میں شامل ہیں جبکہ ایک ہزار کے پاس اسلحہ رکھنے کا لائسنس ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ یہودی اور مسلمان مخالف نظریات کی پیروی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Ohde
اس کے اراکین اور مسٹر جرمنی کون ہیں؟
جرمن حکام کے مطابق اس تحریک کے اراکین کی اوسطا عمر پچاس سال ہے جبکہ یہ معاشرتی اور مالی طور پر پسماندہ ہیں۔ زیادہ تر اراکین جرمنی کے مشرقی اور جنوبی علاقوں سے ہیں۔ آدریان اورزاخے سابق مسٹر جرمنی ہیں اور اس تحریک کا ہی حصہ ہیں۔ انہیں سن دو ہزار انیس میں ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ سے زخمی کرنے کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
فیصلہ کن موڑ
وولفگانگ پی کا کیس جرمن حکام کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا۔ انہیں سن 2017 میں ایک پولیس اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ مبینہ طور پر اس تحریک کے اس ہلکار نے اس پولیس اہلکار پر فائرنگ کی، جس نے اسلحہ برآمد کرنے کے لیے اس مجرم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ اس واقعے کے بعد جرمن حکام چوکنا ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
جرمن حکام کیا کر رہے ہیں؟
جرمن حکام پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے طویل عرصے تک اس خطرے کو نظرانداز کیا۔ سن 2017ء میں پہلی مرتبہ خفیہ ایجنسی نے اس تحریک کے خطرناک اراکین کی فہرست تیار کی۔ تب سے متعدد اراکین اور اس تحریک کے ذیلی کالعدم گروپوں کے خلاف چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس اور جرمن فوج میں بھی اس تحریک کے ممکنہ اراکین کی موجودگی کی چھان بین کی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
بین الاقوامی سیاست اور سازشی نظریات
اس تحریک کے کئی اراکین روسی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔ ان کے خلاف سب سے بڑا الزام بھی یہی ہے کہ انہیں روس کی مالی معاونت حاصل ہے اور یہ جرمن حکومت کو کمزور بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا موازنہ امریکی گروپ ’فری مین آن دا لینڈ‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔ اس تحریک کے اراکین کا موقف بھی یہی ہے کہ وہ صرف ان قوانین کے پابند ہیں، جن پر وہ رضامند ہیں۔
تصویر: DW/D. Vachedin
6 تصاویر1 | 6
جرمن وزیر دفاع کے ترجمان سٹیو آلٹر نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ''جو کوئی بھی ہمارے معاشرے کی بنیادی لبرل اقدار کی خلاف وزری کرے گا، اس کے خلاف آئینی جمہوریت کے تحت فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔‘‘
گزشتہ برس جولائی میں متعدد جرمن صوبوں میں اس انتہا پسند گروپ کے ممبران کے خلاف کارروائی کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ حکام کو شبہ تھا کہ اس گروپ نے 'وولفس برج‘ نامی آرگنائزئشن کے تحت ایک ذیلی گروپ بنا رکھا تھا۔
اس گروپ کا علی العلان نعرہ تھا کہ 'جرمن اخلاقی قوانین‘ کو ختم کرتے ہوئے 'آزاد فادر لینڈ کا احیاء‘ کیا جائے، چاہے اس کے لیے طاقت کا ہی استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔
جرمن حکام نے بتایا ہے کہ ہیسے، لوئر سیکسنی اور نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں چھاپے مارے گئے۔ سیکسنی انہالٹ میں بھی ایسی ہی کارروائی کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاہم مناسب شواہد نہ ہونے کے باعث علاقائی کورٹ نے اس کارروائی کو خارج از امکان قرار دے دیا تھا۔
ع ب / ع س / خبر رساں ادارے
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔