جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی ’رائش بُرگر تحریک‘ مزید مضبوط
30 اپریل 2018
جرمن حکام نے کہا ہے کہ ’رائش بُرگر‘ یا ’رائش سٹیزن‘ نامی تحریک کے کارکنوں کے تعداد گزشتہ دو برسوں کے دوران اسّی فیصد بڑھی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی اس تنظیم کی مقبولیت میں اضافے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے داخلی خفیہ ادارے اور تحفظِ آئین کے وفاقی دفتر (بی ایف وی) کے اندازوں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ’رائش بُرگر‘ تحریک کے کارکنوں کی تعداد اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ ہو چکی ہے، جو 2016ء کے مقابلے میں اسّی فیصد زیادہ ہے۔
بی ایف وی کے ایک ترجمان نے برلن کے اخبار ’ٹاگس اشپیگل‘ کو بتایا کہ ان افراد میں سے 950 کا شمار انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندوں میں ہوتا ہے۔ ترجمان کے بقول رائش بُرگر تحریک کے بارہ سو افراد کے پاس اسلحہ رکھنے کے قانونی اجازت نامے بھی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکام 2017ء سے لے کر اب تک ساڑھے چار سو رائش ُبرگر افراد کے لائسنس منسوخ بھی کر چکے ہیں۔
خود کو ’جرمن رائش‘ کے شہری قرار دینے والے یہ افراد وفاقی جمہوریہ جرمنی کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جرمن ریاست کی 1937ء والی سرحدیں ابھی تک قائم ہیں اور موجودہ جرمن حکومت ایک ایسے ملک کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے، جو ابھی تک غیر ملکی قوتوں کے زیر قبضہ ہے۔ زیادہ تر ’رائش سٹیزن‘ انتہائی دائیں بازو کی سوچ اور سامیت دشمن نظریات رکھتے ہیں۔
بی ایف وی کے مطابق رائش بُرگر تحریک کے ارکان کی تعداد میں اس واضح اضافے کا مطلب یہ نہیں کہ اس تحریک میں نئے ارکان بھی شامل ہوئے ہیں۔ تاہم رائش بُرگر موومنٹ سے متعلق چھان بین کرنے والوں کا خیال ہے کہ 2016ء میں جنوبی صوبے باویریا میں رائش بُرگر کے ایک کارکن کی جانب سے ایک پولیس افسر کے قتل کیے جانے کے بعد ایسی سوچ رکھنے والے بہت سے لوگ منظر عام پر آئے، جو اس سے قبل حکام کی نظروں سے اوجھل تھے۔
بی ایف وی نے 2016ء کی اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ نام نہاد ’رائش بُرگر سٹیزنز‘ کی تعداد تقریباً دس ہزار ہے اور باقاعدہ طور پر ان میں سے پانچ سو سے لے کر چھ سو تک انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔