جرمنی اور اٹلی میں کساد بازاری کا خطرہ، آئی ایم ایف
12 اکتوبر 2022
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی پیشن گوئی سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ برس جرمنی اور اٹلی میں کساد بازاری کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ امکان ہے کہ روسی گیس کی سپلائی میں کٹوتیوں سے دونوں ممالک کی معیشتیں سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔
اشتہار
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 11 اکتوبر منگل کے روز معاشی نمو سے متعلق جو پیش گوئیاں کی ہیں، اس کے مطابق جرمنی اور اٹلی دونوں ہی 2023 میں کساد بازاری کا شکار ہو جائیں گے۔ ادارے نے عالمی سطح پر نمو سے متعلق اپنی پیش گوئی کو بھی کم کر دیا ہے۔
اگر یہ اندازہ درست ثابت ہوا، تو یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں جی سیون ممالک کی سمٹنے والی یہ دونوں پہلی ترقی یافتہ معیشتیں ہوں گی۔
اشتہار
آئی ایم ایف نے کیا کہا؟
عالمی معیشتوں کی صورت سے حال سے متعلق اپنے ایک اپڈیٹ میں آئی ایم ایف نے کہا کہ اب جرمن معیشت کے سن 2023 میں 0.3 فیصد سکڑنے کی توقع ہے۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کا روسی گیس پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ تاہم ماسکو نے مغربی پابندیوں کے جواب میں گیس کی سپلائی میں کٹوتی کر دی ہے۔
اٹلی بھی روسی ایندھن کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور اس کی بھی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 0.2 فیصد تک کمی کی توقع ہے۔ جولائی میں اٹلی کی معیشت کی 0.8 فیصد کی نمو کی پیش گوئی کی گئی تھی، جس میں اب تیزی کے بجے کمی کی بات کہی گئی ہے۔
اگرچہ مجموعی طور پر یورو زون کے کساد بازاری سے بچنے کی توقع ہے، لیکن سنگل کرنسی پر مبنی اس بلاک میں شامل 19 ممالک کی پیداوار میں صرف صفر اعشاریہ پانچ فیصد اضافے کی ہی پیش گوئی کی گئی ہے، جو پہلے کی پیش گوئی سے بدتر ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا، ''سن 2023 کے دوران یورپ بھر میں کمزور معاشی ترقی کی شرح یوکرین جنگ سے پھیلنے والے اثرات کی عکاسی کرتی ہے، خاص طور پر ان معیشتوں کے تیزی سے نیچے کی طرف جانے کا امکان ہے، جن کو روسی گیس کی سپلائی میں کٹوتیوں کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔'' اس رپورٹ میں یورو زون کے لیے ''سخت مالی حالات'' کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
عالمی سطح پر سست روی کا رجحان
آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی معیشت میں اب صرف 2.7 فیصد اضافے کی ہی توقع ہے، جو پہلے کی پیش گوئی سے 0.2 فیصد کم ہے۔ ادارے کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے دنیا کے تینوں بڑے اقتصادی زون میں سست روی والی معیشتوں کو اجاگر کیا۔
گرچہ یورو زون کے لیے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ایک بڑا مسئلہ ہے، تاہم چین جیسی معیشتوں کے لیے کووڈ 19 جیسی وبا کا اثر زیادہ ہے، جو ایک مسلسل مسئلہ رہا ہے۔ اگلے برس چین کی نمو 4.4 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یہ چینی معیار کے لحاظ سے بہت معمولی ہونے کے ساتھ ہی جولائی کی پیش گوئی کی مناسبت سے بھی 0.2 فیصد کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ کی لیبر مارکیٹ مضبوط ہے، تاہم امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے سود کی شرح میں جارحانہ اضافے کی وجہ سے ملازمتوں کی ترقی سست ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
آئی ایم ایف نے رواں برس امریکی معیشت کی ترقی کی شرح 2.3 فیصد سے کم کر کے 1.6 فیصد کر دی ہے۔ ادارے کو سن 2023 میں صرف ایک فیصد معمولی ترقی کی توقع ہے۔
عالمی معیشت فی الوقت متعدد رکاوٹوں سے دوچار ہے۔ یوکرین کی جنگ نے خوراک اور توانائی کی قیمتوں کو بڑھا دیا ہے جبکہ کووڈ کی وبا سے حالات پہلے ہی کافی خراب تھے۔ اس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سود کی بڑھتی ہوئی شرحوں میں پھر سے شدید اضافے کا خطرہ لاحق ہے۔
آئی ایم ایف میں معاشی امور کے مشیر پیئر اولیور گورینچاس نے تازہ ترین نقطہ نظر کے ساتھ اپنے ایک بلاگ میں کہا ہے: ''اس برس کے نئے جھٹکے معاشی زخموں کو تازہ کر سکتے ہیں، جو وبائی مرض کے بعد ابھی صرف جزوی طور پر ہی مندمل ہو پائے تھے۔''
اس کے برعکس روس کا نقطہ نظر جولائی سے اب کافی بہتر ہوا ہے، حالانکہ ابھی اس کی معیشت منفی زون میں ہے۔ تاہم توقع ہے کہ پابندیوں کی زد میں آنے والی روسی معیشت اگلے برس 2.3 فیصد تک سکڑ جائے گی، جبکہ اس سے قبل 3.5 فیصد سکڑنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
تیل کی قیمتوں میں ڈرامائی کمی کے اثرات
تقریباً روزانہ ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ایک برس سے زائد عرصے سے کمزور عالمی معیشت اور تیل کی زیادہ پیداوار کے باعث بے یقینی کی سی صورتحال ہے، جس کی وجہ سے کچھ ممالک بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Hong
خمار اتر رہا ہے
کسی کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے والا ناروے بھی تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے متاثر ہو جائے گا۔ بحیرہٴ شمال کی تہہ میں موجود خام تیل نے ناروے کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا تاہم تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اوسلو حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑ رہی ہے۔ اب یہ ملک تیل اور گیس کی فروخت پر بھروسا کرنے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری پر بھی انحصار بڑھائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Hagen
دوہرا نقصان
صرف یورپی یونین کی اقتصادیاں پابندیاں ہی نہیں بلکہ تیل کی کم قیمتیں بھی روس کے غصے میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ 2015ء کے دوران روسی اقتصادی ترقی میں چار فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ تنخواہوں میں کمی اور ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روبل کی قدر میں کمی کی صورت میں نکلا۔ اقتصادیات سے متعلق ایک تنظیم ’بلومبرگ‘ کے مطابق اس سال بھی روس کو کساد بازاری کا سامنا رہے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Druzhinin
مستقبل داؤ پر
نائجیریا افریقہ میں تیل کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔ نئے صدر محمدو بخاری نے انتخابات سے قبل ریاستی اخراجات میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ انتخابی وعدہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی نذر ہو گیا۔ عالمی بینک کے مطابق اس ملک کو ایک تہائی آمدنی تیل کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے بہت سے منصوبے تعّطل کا شکار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نئی حقیقت
صرف نائجیریا ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ممالک اپنے مالیاتی معاملات کا حساب کتاب تیل کی اونچی قیمتوں سے کرتے ہیں۔ تاہم کم قیمتوں کی وجہ سے ان ممالک کے ریاستی بجٹوں میں ایک خلاء سا پیدا ہو گیا ہے۔ 2014ء کے وسط سے تیل کی قیمتیں تقریباً 75 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ ماہرین مستقبل قریب میں اس صورتحال کو بہتر ہوتا ہوا بھی نہیں دیکھ رہے۔
پابندیوں کے بعد
برآمدات پر پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد ایران روزانہ تقریباً ڈیڑھ ملین بیرل تیل عالمی منڈی کو مہیا کرے گا۔ اس طرح یہ ملک خود کو بھی نقصان پہنچائے گا کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی مقدار بڑھنے سے اس کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہو گی۔ تاہم تہران حکومت اپنے دشمن سعودی عرب کو ان کم قیمتوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh
اپنے ہی دام میں
سعودی عرب تیل کی پیداوار کم کرنے کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس طرح سعودی عرب تیل نکالنے کے شعبے میں امریکا اور اپنے حریف ملک ایران کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ تاہم اب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا یہ سب سے بڑا ملک اپنے ہی دام میں پھنستا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے سعودی عرب کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر خسارے سے خبردار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Grimm
آخر کب تک؟
قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات کی صورتحال بھی سعودی عرب سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مالیاتی ادارے جے پی مورگن کے اندازوں کے مطابق چھ خلیجی ریاستوں کے بجٹ کے خسارے کو اگر ایک ساتھ ملایا جائے تو یہ 260 ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: M. Naamani//AFP/Getty Images
انتقال اقتدار سے قبل
دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر لاطینی امریکی ملک وینزویلا کے پاس ہیں۔ ایک طویل عرصے تک ملک کی سوشلسٹ حکومت تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے اپنے سماجی منصوبوں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتی رہی۔ تاہم اب صدر نکولس مادورو نے اقتصادی شعبے میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔ انہیں ملک میں سیاسی میدان میں بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters
کھدائی، کھدائی اور کھدائی اور اب ؟
تیل تلاش کرنے کی جدید ٹیکنالوجی نے امریکا کو تیل کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بنا دیا ہے۔ تاہم ان کم قیمتوں کی وجہ سے انتظامیہ بہت سے آئل ٹرمینلز کو بند کرنے پر بھی مجبور ہو چکی ہے۔ امریکا توانائی کے استعمال کے حوالے سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تیل کی انتہائی کم قیمتوں سے گاڑی چلانے والے افراد البتہ آج کل بے حد خوش ہیں۔