مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین کی نئی امیگریشن پالیسی پر اٹلی اور جرمنی متفق ہو گئے ہیں۔ میرکل اور اطالوی وزیر اعظم نے یورپی ممالک کی جانب سے انفرادی طور پر سرحدیں بند کرنے کی مخالفت بھی کی ہے۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا مریکل اور اطالوی وزیر اعظم ماتیو رینزی کے مابین ملاقات آج روم میں ہوئی۔ دونوں اہم یورپی رہنماؤں کی ملاقات کے دوران یورپی یونین کی نئی امیگریشن پالیسی پر اتفاق کر لیا گیا۔
تاہم میرکل اور رینزی نے خبردار کیا ہے اگر یورپی یونین نے پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی کے بجائے انفرادی طور پر سرحدیں بند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو یورپ میں قومیت پرستی کا جن ایک مرتبہ پھر بوتل سے باہر نکل آئے گا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی روم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق دونوں رہنماؤں کے مابین ملاقات کے دوران پناہ گزینوں کا بحران موضوع بحث رہا۔ ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ افریقہ سے بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے افریقی ممالک کو مالی امداد فراہم کی جائے گی۔
رواں برس کے آغاز سے اب تک انتیس ہزار نئے تارکین وطن بحیرہ روم عبور کر کے اطالوی ساحلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ترکی اور یورپی یونین کے مابین تارکین وطن کی واپسی کا معاہدہ طے پانے کے بعد اٹلی کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔
اسی خدشے کے پیش نظر آسٹریا نے گزشتہ مہینے اعلان کیا تھا کہ اٹلی سے متصل سرحدی راستوں کو خاردار تاریں لگائی جائیں گی اور بارڈر کنٹرول بھی سخت کیا جائے گا۔ میرکل اور رینزی نے آسٹریا کے اس اعلان پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ رینزی نے آسٹریا کی جانب سے سرحد بند کرنے کی حکمت عملی کو ’فرسودہ‘ ’انتہائی غلط‘ اور ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا۔
یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے پاکستانی
02:33
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا بھی اس بارے میں کہنا تھا کہ مہاجرین کا بحران ’سرحدیں بند کرنے کی بجائے کسی اور طریقے سے‘ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ میرکل کا مزید کہنا تھا، ’’ہم اپنی سرحدوں کو بند نہیں کر سکتے، ہمیں ایک دوسرے سے وفادار رہنا ہو گا۔‘‘ میرکل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یورپی ممالک کو شینگن زون میں آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنانا ہو گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بصورت دیگر یورپ میں ایک مرتبہ پھر قومیت پرستی فروغ پا سکتی ہے۔
میرکل اور رینزی کے مابین ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ افریقی ممالک کو مالی مدد کس بجٹ سے فراہم کی جائے گی۔ تاہم اطالوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے بلکہ انہیں اس بات سے مطلب ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔