برطانوی مصنف اسٹیفن گرین نے جرمن تاریخ کے بارے میں جو کتاب لکھی ہے، اسے ان کی طرف سے جرمنی اور جرمن ثقافت سے اعلان محبت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اسٹیفن گرین کے بقول جرمنی یورپ اور پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ہو سکتا ہے۔
اشتہار
اس برطانوی مصنف نے اپنی اس کتاب کے بارے میں ڈوئچے ویلے کے لیے پاؤلا روئزلر کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے اپنی یہ کتاب 2014ء میں لکھی تھی اور کچھ ہی عرصے بعد اس کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی شائع ہو گیا تھا۔
اس کتاب کے انگریزی ایڈیشن کا عنوان ہے، ’’پیارا جرمنی: جرمنی کا ماضی کس طرح یورپ کے مستقبل کی تشکیل کر رہا ہے۔‘‘ اس کے برعکس اس کتاب کے جرمن زبان میں شائع ہونے والے ایڈیشن کا ٹائٹل ہے، ’’پیارا جرمنی: ماضی کے حامل ایک ملک کے لیے اعلان محبت۔‘‘
اس کتاب کے جرمن اور انگریزی زبانوں میں عنوانات ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہیں، اس بارے میں اسٹیفن گرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’انگریزی زبان کے ایڈیشن کا عنوان میں نے خود دیا تھا لیکن اس کے جرمن ایڈیشن کا ٹائٹل اس کتاب کے جرمن پبلشر کے ساتھ میرے تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد منتخب کیا گیا تھا۔ میں نے اس کی منظوری اس لیے دی کہ یہ اس کتاب کے اسی پہلو کی نمائندگی کرتا ہے، جو میرے لیے بہت اہم ہے۔ یہ عنوان جرمن تاریخ و ثقافت سے میری اس محبت کا عکاس بھی ہے، جس کے بہت سے مختلف پہلو ہیں۔‘‘
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert
9 تصاویر1 | 9
لیکن جرمنی اور جرمنوں کی اسٹیفن گرین کے مطابق خاص بات کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں اس برطانوی مصنف نے کہا، ’’جرمنی ایک ایسا خوبصورت ملک ہے جہاں میں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ گزارا ہے۔ میں نے جرمنی کے مختلف حصوں کو شاید بہت سے جرمنوں سے بھی کہیں زیادہ قریب سے اور گہرائی میں دیکھا ہے۔‘‘
اسٹیفن گرین کے مطابق، ’’جرمن ثقافت انتہائی شاندار اور بہت گہری جڑوں والی ہے۔ جرمنی اور جرمنوں نے اپنی سوچ اور ثقافت کے اظہار کے لیے فن تعمیرات، موسیقی، ادب، فلسفے اور بہت سے دیگر شعبوں میں دنیا کو بہت سے نئے زاویے اور امکانات دیے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ جرمن ثقافت سے زیادہ عظیم تر ثقافت شاید کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘
اس کتاب کے مصنف نے ماضی کے کلاسیکی جرمن موسیقاروں، فلسفیوں اور مصنفین کے لیے جس احترام و محبت کا اظہار کیا ہے، کیا آج کے جرمن باشندے بھی دنیا کے لیے اتنے ہی اچھے رول ماڈل ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اسٹیفن گرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بلاشبہ آج کا جرمنی اور جرمن بھی دنیا کے لیے بہت اہم رول ماڈل ہیں۔ سب سے حیران کن بات وہ تہرا معجزہ ہے، جو جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کر دکھایا تھا۔ ان میں سے پہلا معجزہ تو وہ اقتصادی کامیابی تھی، جو جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد حاصل کی۔‘‘
’’دوسرا معجزہ 1949ء میں مغربی جرمنی پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی کا قیام تھا، جو ایک سیاسی معجزہ تھا۔ یہ ریاست دنیا کی مضبوط ترین اور مستحکم ترین جمہوریتوں میں سے ایک ثابت ہوئی اور اس کی یہ حیثیت دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ شروع میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی اس سیاسی کامیابی سے متعلق کوئی پیش گوئی ممکن نہیں تھی، خاص طور پر ماضی میں ’تیسری رائش‘ اور اس سے قبل وائیمار ریپبلک کی ناکامی سے جڑے تاریخی واقعات کی وجہ سے۔‘‘
’’تیسری اور اہم ترین بات یہ حقیقت ہے کہ جدید جرمنی نے اپنے ماضی کے تاریک ترین دور کا سامنا کیسے کیا؟ لیکن یہ کام بھی یکدم نہیں ہوا تھا۔ اس کے لیے عشروں تک محنت کی گئی تھی اور جرمن قوم نے خود اپنے ماضی میں جھانک کر دیکھا کہ اس نے کہاں کہاں کیا کچھ غلط کیا تھا۔ ایک نئی، جمہوری اور بہت انسان دوست سیاسی شناخت کے تعین کا یہ عمل بہت تکلیف دہ بھی تھا اور اپنے ہی ماضی کا سامنا کرتے ہوئے جرمنوں نے بڑی ہمت اور اخلاقی حوصلے کا ثبوت دیا تھا۔‘‘
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
اپنے اس انٹرویو میں اسٹیفن گرین نے ایک بہت اہم بات یہ بھی کہی کہ جرمنی کا موجودہ کردار دراصل پوری انسانیت کے لیے ایک ماڈل ہے۔ مثلاﹰ صرف جاپان اور روس کے لیے ہی نہیں بلکہ آئرلینڈ کی تاریخ کے حوالے سے برطانیہ کے لیے بھی اور الجزائر میں فرانس کے ماضی کے حوالے سے پیرس کے لیے بھی۔
اس سوال کے جواب میں کہ وہ جرمنی اور جرمن عوام کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں، اسٹیفن گرین نے پاؤلا روئزلر کو بتایا، ’’جرمنی کا جمہوریت پر یقین زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک مضبوط ہے۔ یورپ اور جرمنی میں مہاجرین کے بحران کی وجہ سے کچھ کشیدگی اور کھچاؤ دیکھنے میں آئے ہیں لیکن جرمن قوم نے جس طرح اس بحران کا سامنا کیا، اس کی وجہ سے جرمنی اور جرمن دونوں ہی اپنا سر فخر سے بلند کر کے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے وہی کچھ کیا، جو درست تھا۔ 2015ء میں تارکین وطن اور مہاجرین کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران میں میرے اپنے وطن برطانیہ نے جس کم دلی اور پابندیوں کی سوچ کا مظاہرہ کیا، اس کے باعث دراصل میں اپنے برطانوی ہونے پر شرمندہ بھی ہوں۔‘‘
اسٹیفن گرین نے اپنے اس انٹرویو کے آخر میں یہ امید بھی ظاہر کی کہ جرمنی آئندہ بھی اپنی قیادت میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔ ’’یہی وہ سوچ ہے جس کی موجودہ یورپ کو ضرورت ہے۔ ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ۔‘‘
پاؤلا روئزلر / م م / ش ح
جرمن کار سازی کی صنعت
جرمنی کو عالمی سطح پر بھاری ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک خاص شہرت حاصل ہے۔ اس ملک کی کاروں کو اقوام عالم میں پسند کیا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ گاڑیوں کا پائیدار انجن خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Gou Yige/AFP/Getty Images
جرمن کاروں کی مقبولیت
جرمنی کی کارساز صنعت کے مختلف برانڈز ہیں، جنہیں مختلف ممالک کے لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ ان میں مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو، پورشے، آؤڈی، فولکس ویگن خاص طور پر بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
نوجوان نسل آؤڈی کو زیادہ پسند کرتی ہے
کسی دور میں جرمن عوام میں مرسیڈیز گاڑی کو اعلیٰ مقام حاصل تھا، ایسا آج بھی ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے میں نوجوان نسل کو آؤڈی گاڑی نے اپنا دیوانہ بنا لیا ہے۔
تصویر: J. Eisele/AFP/Getty Images
پورشے
جرمن ساختہ پورشے کو لگژری کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے مختلف ماڈل دنیا بھر کی اشرفیہ میں خاص طور پر مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
ڈیزل گیٹ اسکینڈل
تقریباً دو برس قبل فوکس ویگن کاروں سے دھوئیں کے اخراج کا اسکینڈل سامنے آیا۔ یہ اسکینڈل عالمی سطح پر ڈیزل گیٹ اسکینڈل کے نام سے مشہور ہوا۔ اس دوران اس کی لپیٹ میں کئی کار ساز ادارے آ چکے ہیں۔
سن 2016 اور سن 2017 میں کاروں کی عالمی امپورٹ میں جرمنی کا حصہ بائیس فیصد تھا۔ یہ کاریں بنانے والے تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S.Simon
مرسیڈیز: جرمنی کی پہچان
جرمنی سمیت دنیا بھر میں مرسیڈیز گاڑی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ مرسیڈیز موٹر کار کو جرمنی کی ایک پہچان بھی سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Wang Zhao/AFP/Getty Images
چینی باشندے جرمن گاڑیوں کے دیوانے
جرمن کار صنعت کے لیے چین بھی اب بہت اہم ہو کر رہ گیا ہے۔ چین میں تیس فیصد کاریں جرمنی سے امپورٹ کی جاتی ہیں۔ چینی خریداروں میں کم اخراج کی حامل گاڑیوں کو بہت زیادہ پسند کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture alliance
ماحول دوست کاری سازی
جرمنی میں بتدریج ماحول دوست کاروں کو پسندیدگی حاصل ہو رہی ہے۔ جرمن ادارہ ڈوئچے پوسٹ نے ترسیل کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھا دیا ہے۔