روسی صدر پوٹن کے ساتھ مخلتف تنازعات پر بات چیت کرنا جرمنی کے نئے چانسلر شولس اور وزیر خارجہ بیئربوک کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ کیونکہ برلن کی ماسکو سے منسلک خارجہ پالیسی پر دونوں کے مؤقف میں واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔
اشتہار
جرمنی کی نئی سہ جماعتی مخلوط حکومت کے درمیان طے کردہ معاہدے میں ایک ایسا جملہ شامل ہے جس کے نتیجے میں تناؤ اور اختلافات جنم لے سکتے ہیں۔ معاہدے میں لکھا ہے، ''ہمیں ایک پرعزم اور خاطر خواہ خارجہ، سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کی پالیسی کی ضرورت ہے جو مربوط اور ہم آہنگ ہو۔‘‘
جرمنی کی اولین خاتون وزیر خارجہ
01:52
اس کا مطلب ہے کہ سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی)، گرین پارٹی، اور فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی) جیوپولیٹیکس کے معاملات پر متحد ہیں اور کوئی بھی جماعت طے شدہ معاملات کی خلاف ورزی نہیں کرے گی۔
نارتھ اسٹریم ٹو: محض کاروبار؟
برلن میں سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مخلوط حکومت کے قیام سے قبل ہی یہ بات عام تھی کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے چانسلر شولس (ایس پی ڈی) اور وزیر خارجہ بیئربوک (گرین) کے درمیان واضح اختلافات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر ماسکو کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں۔
انتخابی مہم کے دوران چانسلر کی امیدوار کے طور پر بیئربوک نے روس اور جرمنی کے مابین گیس پائپ لائن کے متنازعہ منصوبے 'نارتھ اسٹریم ٹو‘ کی برملا مخالفت کی تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ اس منصوبے سے جرمنی کو توانائی کے حصول کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس دوران شولس نے کہا تھا کہ یہ پائپ لائن ایک 'کاروباری منصوبے‘ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
بالآخر وزیر خارجہ بیئربوک سے مخلوط حکومت کے ساتھ مل کر اس منصوبے کی حمایت کی توقع کی جا رہی ہے۔
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
7 تصاویر1 | 7
تاہم وفاقی چانسلر اور وزیر خارجہ کے درمیان ممکنہ تصادم کو اس صورت میں بھی بچایا جاسکتا ہے اگر جرمنی کی فیڈرل نیٹ ورک ایجنسی، جو پائپ لائن کو چلانے کا حتمی فیصلہ کرنے کی ذمہ دار ہے، یہ فیصلہ کرے کہ تکنیکی اور قانونی وجوہات کی بنا پر اسے کمیشن نہیں کیا جانا چاہیے، یعنی فعال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس بات کا فیصلہ آئندہ چھ ماہ میں متوقع ہے۔
اشتہار
امریکا، جرمنی اور روس
واشنگٹن کے سرکاری دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اپنے ہم منصب انٹونی بلنکن سے ملاقات کے بعد یقین دہانی کرائی کہ اگر روس توانائی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا یا پھر اشتعال انگیز کارروائیاں کرے گا تو برلن کی نئی حکومت یورپی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ماسکو کے خلاف مؤثر اقدام کرے گی۔
بیئربوک کے بقول، ''ہم یوکرائن کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں، مشرقی یوکرائن میں تشدد اور کریمیا کے الحاق کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی عمل تھا۔‘‘ یہ صدر پوٹن کے لیے ایک سخت انتباہ تھا اور چانسلر شولس بھی اس سے اختلاف نہیں کر سکے۔
پوٹن - شولس ملاقات
اگر جرمنی روسی صدر کے ساتھ معاملات میں اپنی پوزیشن کمزور نہیں کرنا چاہتا، تو اسے چانسلر اور وزیر خارجہ کے درمیان باہمی ہم آہنگی پر مبنی حکمت عملی تیار اور نافذ کرنا ہو گی۔
تاہم سیاسی ماہرین کو اس طرح کی متفقہ حکمت عملی کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔ جرمن اخبار بِلڈ سائٹنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق چانسلر شولس چاہتے ہیں کہ ماسکو کے ساتھ تعلقات کا فیصلہ اعلیٰ ترین سطح پر ہی کیا جانا چاہیے، یعنی وفاقی چانسلر کے دفتر میں۔
نئی جرمن پارلیمان: نئے چہروں کے ساتھ پہلے سے زیادہ جوان
ایک ماہ قبل جرمنی میں عام انتخابات میں نئی وفاقی پارلیمان منتخب کی گئی تھی۔ چھبیس اکتوبر کو نئی پارلیمان کا اولین اجلاس منعقد ہوا۔
تصویر: CSU
نوجوان پارلیمان
اپنے اراکین کی اوسط عمر کے لحاظ سے سات سو چھتیس رکنی نئی بنڈس ٹاگ سابقہ پارلیمان سے واضح طور پر زیادہ نوجوان ہے۔ ان میں سب سے کم عمر رکن تیئیس سالہ ایمیلیا فیسٹر ہے۔ سینتالیس اراکین کی عمریں تیس برس سے کم ہیں۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ایک اوسط سیاستدان
نئی بنڈس ٹاگ میں قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے میشائل برانڈ سینتالیس برس کے ہیں اور یہی اس نئی جرمن پارلیمان کے اراکین کی اوسط عمر ہے۔ وہ ایک وکیل ہیں اور یہ جرمن سیاستدانوں کا مقبول پیشہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے نام کا ابتدائی حصہ میشائل ہے اور یہی نئی جرمن پارلیمان کا سب سے زیادہ مشترکہ نام بھی ہے۔
تصویر: HMB Media/Mueller/picture alliance
بزرگ سیاستدان
نئی جرمن پارلیمان کے سب سے بزرگ سیاستدان الیگزانڈر گاؤلانڈ ہیں اور ان کی عمر اسی برس ہے۔ ان کا تعلق عوامیت پسند سیاسی جماعت متبادل برائے جرمنی یا اے ایف ڈی سے ہے۔ سی ڈی یو کے ساتھ طویل عرصے سے وابستگی رکھنے والے وولف گانگ شوئبلے نے نئی پارلیمنٹ کے اولین سیشن کا آغاز کیا۔
تصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance
صنفی تنوع
گزشتہ کے مقابلے میں نئی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان کی تعداد چار فیصد زیادہ ہو گئی ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ سوشلسٹ لیفٹ پارٹی کے اراکین میں ہوا ہے۔ حقیقی صنفی برابری کی سمت یہ ایک سست رفتار عمل ہے۔ چوالیس سالہ ٹیسا گانزیرر اور ستائیس سالہ نائک سلاوک پہلی ٹرانس جینڈر خواتین ارکان ہیں۔ اس موقع پر سلاوک نے ٹویٹ کی کہ ان کی کامیابی کی کہانی دنیا بھر میں مقبول ہو گی۔
مہاجرت کی تاریخ
جرمن پارلیمان کے تراسی اراکین کا تعلق تارکین وطن کی برادریوں سے ہے۔ زیادہ تر اراکین لیفٹ پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ایس پی ڈی کی انتیس سالہ راشا نصر بھی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ شامی والدین کی اولاد ہیں اور مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں پیدا ہوئی تھیں۔
تصویر: SPD
افریقی نژاد جرمنوں کی نمائندگی
آرمانڈ سورن جرمنی کی بڑھتی ہوئی افریقی نژاد برادری کے نمائندہ ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سورن افریقی ملک کیمرون میں پیدا ہوئے اور بارہ سال کی عمر میں جرمنی آئے تھے۔ ستمبر کے انتخابات میں وہ براہ راست نشست جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے۔ اس تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا انتخاب واضح کرتا ہے کہ جرمن معاشرہ بہت متنوع ہے۔
تصویر: Sebastian Gollnow/dpa/picture-alliance
اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ
زیادہ تر اراکینِ پارلیمان یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم رکھتے ہیں۔ بہت کم ووکیشنل تعلیم کے حامل ہیں۔ اِن میں سے ایک انسٹھ سالہ گلستان اؤکسیل ہیں۔ وہ سن ستر کی دہائی میں جرمنی پہنچنے والے ایک مہمان کارکن کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے فارمیسی اسسٹنٹ کی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ سیاست میں آنے کے بعد وہ پہلی مرتبہ رکن پارلیمان سن 2013 میں بنی تھیں۔
تصویر: Jens Krick/Flashpic/picture alliance
کاروباری افراد
جرمن پارلیمنٹ میں چھوٹے کاروباری طبقے کی نمائندگی توقع سے کم ہوتی ہے۔ اس مرتبہ اس طبقے کے اکاون اراکین ہیں۔ زیادہ تر کا تعلق کاروبار دوست سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ ان میں سے ایک کرسٹینے لیُوٹکے ہیں۔ اڑتیس سالہ لیُوٹکے نے ایک اولڈ پیپلز ہوم کا انتظام اپنے والدین سے سنبھالا۔
تصویر: FDP/Heidrun Hoenninger
وبا کے باوجود ماہرین صحت کی کمی
کووڈ انیس کی وبا نے ہیلتھ سیکٹر کی اہمیت کو اجاگر ضرور کیا لیکن پارلیمنٹ میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ صرف چند ایک ڈاکٹرز ہیں اور باقی کئی صحت کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک صوبے باویریا کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین کے اشٹیفان پِلزِنگر ہیں، جو ایک ماہر ڈاکٹر ہیں۔
تصویر: CSU
9 تصاویر1 | 9
دوسری جانب برلن میں رواں ماہ کے دوران روسی صدر پوٹن اور جرمن چانسلر شولس کے درمیان ممکنہ ملاقات کی چہ مگوئیاں کی جاری ہیں اور پس پردہ سیاسی حلقوں میں ماسکو اور برلن کے تعلقات کو 'ری سیٹ‘ کرنے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔
اگر چانسلر شولس ماسکو کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حکمت عملی کو محض اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں تو یہ جرمن آئین کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ کیونکہ، جرمن آئین کے آرٹیکل 65 کے مطابق، ''پالیسی کے عام ضوابط کا تعین وفاقی چانسلر کریں گے اور وہ ہی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے، تمام وفاقی وزیر اپنے اپنے اداروں کے معاملات آزادی اور اپنی ذمہ داری کے تحت سنبھالیں گے۔‘‘
تعمیراتی مذاکرات کی کوشش
جرمن چانسلر شولس اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ روس اور دیگر ممالک کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے سخت محنت کریں گے کہ یورپی انضمام ایک ایسی طاقت ہے جسے تسلیم کیا جائے۔
گزشتہ برس اقتدار سنبھالنے والی سہ فریقی جماعتوں کے حکومتی اتحاد کے معاہدے میں ٹھوس اور مستحکم تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور اس طرح کی شراکت داری کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ 'ہم تعمیراتی مذاکرات کے خواہاں ہیں‘: بہت جلد اس عزم کی آزمائش کا وقت سامنے آ سکتا ہے۔
مارسل فُرسٹناؤ / ع آ / ش ح
جرمنی کی قیادت سنبھالنے والے چانسلر
سن 1949 سے اب تک جرمنی کی قیادت کل آٹھ چانسلروں نے سنبھالی ہے۔ ان میں صرف انگیلامیرکل ہی خاتون ہیں۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ مختلف چانسلرز کی کیا خصوصیات تھیں۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
انگیلا میرکل، سی ڈی یو 2021-2005
انگیلا میرکل جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر ہیں۔ یہ سولہ سال تک جرمن چانسلر رہی ہیں۔ اس سال جرمنی میں انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں میں بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ نئی حکومت کے قیام تک میرکل ملک کی چانسلر رہیں گی۔
تصویر: Laurence Chaperon
گیرہارڈ شروئڈر، ایس پی ڈی 2005-1998
1998ء میں پہلی مرتبہ ایس پی ڈی اور گرین پارٹی کا حکومتی اتحاد قائم ہوا۔ اس اتحاد نے ایس پی ڈی کے گیرہارڈ شروئڈر کو ملک کا چانسلر منتخب کیا۔ پہلی مرتبہ جرمن فوجی نیٹو اتحاد کے تحت بیرون ملک تعینات ہوئے۔ ان کا سماجی بہبود کا پروگرام ایجنڈا 2010 ان کی پارٹی کے استحکام پر سوالیہ نشان بن گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیلموٹ کوہل، سی ڈی یو 1998-1982
ہیلموٹ کوہل سولہ سال تک جرمن چانسلر رہے۔ ان کی قیادت کے انداز کو بہت محتاط تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن ان کے دور اقتدار میں مغربی اور مشرقی جرمنی کا انضمام ہوا۔ انہوں نے سابقہ مشرقی جرمنی کی تعمیر نو کے لیے بھی اہم فیصلے کیے۔ کوہل نے یورپی اتحاد کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیلموٹ شمٹ، ایس پی ڈی 1982-1974
ولی برانٹ کی جانب سے عہدے سے مستعفی ہونے پر ہیلموٹ شمٹ نے چانسلر کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں تیل کے بحران، مہنگائی اور معیشت کی سست روی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے انتہائی بائیں بازو کی شدت پسند تنظیم 'ریڈ آرمی فیکشن' کے خلاف انتہائی سخت موقف اپنایا۔ انہیں پارلیمان میں اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرنے پر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ولی برانٹ، ایس پی ڈی 1974-1969
احتجاجی مظاہروں کے باعث جرمنی کی سیاست تبدیل ہو گئی۔ سوشل ڈیموکریٹک جماعت کے ولی برانٹ اس سیاسی جماعت کے پہلے چانسلر بن گئے۔ انہوں نے وارسا میں ایک یادگار کے سامنے جب اپنے گھٹنے جھکائے تو اسے نازی جرمنی کی جانب سے معافی کے طور پر دیکھا گیا۔ انہیں سن 1971 میں مشرقی ممالک کے ساتھ تناؤ کم کرنے پر نوبل امن انعام بھی دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کرٹ گیورگ کیسنگر، سی ڈی یو 1969-1966
ان کے دور اقتدار میں سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کے مابین پہلا 'گرینڈ اتحاد' قائم ہوا۔ اس دور میں جرمنی کی معیشت تیزی سے گری۔ حکومت کی جانب سے ہنگامی قوانین کے نفاذ کے خلاف نوجوان سٹرکوں پر آنکلے۔ یہیں سے جرمنی میں طلبا کی ایک تحریک کا آغاز ہوا۔ نازی دور میں کیسنگر کے کردار پر کافی تنقید کی جاتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لڈوگ ایرہارڈ، سی ڈی یو 1966-1963
لڈوگ ایرہارڈ کو آڈے ناؤر کا جانشین منتخب کیا گیا تھا۔ انہوں نے آڈے ناؤر کے دور میں بطور وزیر خارجہ کافی شہرت پائی تھی۔ انہوں نے سماجی اقتصادیات کو اپنایا اور مغربی جرمنی کی اقتصادی ترقی کے بانی کہلائے جانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کونراڈ آڈے ناؤر، سی ڈی یو 1963-1949
کونراڈ آڈے ناؤر جرمنی کے پہلے چانسلر تھے۔ ان کی قیادت میں جرمنی ایک خودمختار ریاست بنا۔ ان کی خارجہ پالیسی کا رجحان مغرب کی طرف تھا۔ ان کی قیادت کے انداز کو آمرانہ بھی کہا جاتا تھا۔