جرمنی اور نیٹو ’روسی جارحیت‘ کے خلاف مدد کریں، یوکرائن
29 نومبر 2018
یوکرائنی صدر نے جرمنی سمیت نیٹو رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ روس کے خلاف یوکرائن کی حمایت کی غرض سے بحیرہ آزوف میں بحری جہاز روانہ کیے جائیں۔ حالیہ سمندری تنازعے کے باعث کییف اور ماسکو میں کشیدگی بڑھ چکی ہے۔
اشتہار
خبر رساں روئٹرز نے یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمنی سمیت متعدد نیٹو رکن ممالک نے بحیرہ آزوف میں بحری جہاز روانہ کریں۔ کریمیا کے ساحلی علاقوں سے متصل بحیرہ آزوف میں کییف اور ماسکو کے مابین شروع ہونے والے تنازعے کے بعد پوروشینکو نے یورپی یونین اور مغربی دفاعی اتحاد کی سطح پر سفارتکاری شروع کر دی تھی۔ اس تناظر میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔
یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو نے جرمن اخبار بلڈ سے گفتگو میں کہا کہ ’جرمنی ہمارا ایک اہم اتحادی ملک ہے اور ہم امید کرتے ہیں کی نیٹو کی رکن ریاستیں اب تیار ہو چکی ہیں کہ وہ بحیرہ آزوف میں بحری جہاز تعینات کریں تاکہ یوکرائن کی مدد کی جائے اور اسے سکیورٹی فرہم کی جائے‘۔ انہوں نے مزید کہ ’روس اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتا کہ وہ سمندر پر قبضہ کر لے‘۔
پوروشینکو نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا نام لے کر کہا کہ وہ یوکرائن کی اہم دوست ہیں اور انہوں نے ہی سن دو ہزار پندرہ میں منسک میں مذاکرات کے ذریعے یوکرائن کو بچایا تھا۔ یوکرائنی صدر نے اس امید کا اظہار کیا کہ میرکل دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر ایک مرتبہ پھر یوکرائن کی مدد کریں گی۔
یوکرائنی صدر نے تجویز کیا ہے کہ ’روس اور اس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے بڑے منصوبے ہیں‘۔ انہوں نے کہا۔ ’’پوٹن پرانی روسی ایمپائر کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ پوروشینکو کے خیال میں ’یوکرائن کے بغیر روسی ایمپائر نامکمل رہے گی، اس لیے پوٹن اس ملک کو ایک کالونی کے طور پر دیکھ رہے ہیں‘۔
ادھر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ یوکرائن میں صدارتی الیکشن سے قبل پیٹرو پوروشینکو اپنی کم ہوتی مقبولیت کو بڑھانے کی خاطر ’اشتعال انگیزی‘ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تازہ عوامی جائزوں کے مطابق آئندہ برس ہونے والے الیکشن میں پوروشینکو کی مقبولیت نو یا دس فیصد ہی ہے۔
گزشتہ ویک اینڈ پر روسی فوج نے مبینہ طور پر سمندری حدود کی خلاف ورزی کی وجہ سے کریمیا کے نزدیک سے تین یوکرائنی بحری جہازوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا، جس کے نتیجے میں ان دونوں ممالک کے مابین ایک نئی کشیدگی کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔
اس تناظر میں یوکرائنی صدر نے ملک کے سرحدی حصوں میں تیس دونوں کے لیے مارشل لا کا نفاذ کر دیا ہے۔ یورپی یونین نے ماسکو حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرائنئ بحری جہازوں اور فوجیوں کو رہا کر دے۔ تاہم روس ابھی تک ان مطالبات کو مسترد کر رہا ہے۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
یوکرائن میں علحیدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن
تصویر: DW/B. Riegert
پہلی ہلاکت
یوکرائن کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ اتوار کو دونیتسک کے علاقے سلوینسک میں یوکرائنی پولیس کا ایک اہلکار ہلاک ہو گیا۔ روس نواز جنگجوؤں نے وہاں ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا اور ایک سکیورٹی چیک پوائنٹ کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ کییف حکومت نے اس علاقے میں ’انسداد دہشت گردی‘ کے لیے ایک آپریشن شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters
علیحدگی کا مطالبہ
گزشتہ کچھ ہفتوں سے روس نواز جنگجو دونیتسک اور اس کے نواحی علاقوں میں متعدد حکومتی عمارتوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ اس علاقے کی آزادی کی خاطر ایک ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس علاقے میں روسی نسل کے افراد کی اکثریت ہے۔
تصویر: Reuters
انسداد دہشت گردی کے لیے آپریشن
یوکرائن کی حکومت نے سلوینسک نامی علاقے میں بھی دہشت گردی کے خلاف خصوصی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے بحران کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یوکرائن کے وزیر داخلہ Arsen Avakov نے اس آپریشن کے حوالے سے اپنے فیس بک پیغام میں لکھا ہے، ’خدا ہمارا حامی و ناصر ہو‘۔ مقامی آبادی کو شہر کا مرکزی علاقہ خالی کرنے یا گھروں میں رہنے کی تاکید کر دی گئی ہے۔
تصویر: Creative Commons/Viktor Alekseyev
’دوسرے کریمیا‘ کا ماحول پیدا ہونے کا خطرہ
کییف حکومت کو اندیشہ ہے کہ روس بدامنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یوکرائن کے مزید علاقوں پر قبضہ کر سکتا ہے۔ فروری میں کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد وہاں بحرانی صورتحال برقرار ہے۔ یوکرائن کے اس علاقے نے روس کے ساتھ الحاق کے لیے ایک ریفرنڈم کرایا تھا۔
تصویر: Reuters
روسی فوج کی سرحدوں پر تعیناتی
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے ایسی سیٹلائٹ تصاویر جاری کی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ روس نے یوکرائن کے ساتھ سرحدوں پر بڑے پیمانے پر فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ نیٹو کے مطابق وہاں روسی فوجیوں کی تعداد تقریباﹰ چالیس ہزار ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ روس اس منصوبہ بندی میں ہے کہ جیسے ہی کوئی موقع پیدا ہو، یوکرائن پر حملہ کر دیا جائے۔
تصویر: DigitalGlobe/SHAPE/dpa
روسی دعوے
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے ایسے الزامات مسترد کر دیے ہیں کہ ماسکو حکومت یوکرائن پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ کریمیا کو یوکرائن کا حصہ تصور نہ کیا جائے۔
تصویر: Reuters
اکثریت یوکرائن کے ساتھ ہے
یوکرائن کے مشرقی علاقوں کی صورتحال کریمیا سے مختلف ہے۔ معائنہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کی زیادہ تر آبادی یوکرائن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تاہم وہ وسیع تر خود مختاری کے خواہاں ضرور ہیں۔ صرف ایک اقلیت کی کوشش ہے کہ روس کے ساتھ الحاق کر لیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مغرب کا روس سے مطالبہ
یوکرائن کے بحران پر ایک بین الاقوامی ہنگامی میٹنگ آئندہ جمعرات کو منعقد کی جا رہی ہے۔ اس دوران جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے مطالبہ کیا ہے کہ روس تناؤ کے خاتمے کے لیے کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ ماسکو حکومت یوکرائن کی مشرقی سرحدوں سے اپنی افواج واپس بلائے۔