جرمنی اور پولینڈ: ولی برانٹ کا جھکنا، مفاہمت کی ابتدا
7 دسمبر 2020
سات دسمبر سن 1970 کو جرمن چانسلر وِلی برانٹ نے وارسا گیٹو میموریل پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنی تعظیم کا اظہار کیا اور یہ انتہائی ادب والا اشارہ جرمنی اور پولینڈ کے درمیان تعلقات کے ايک نئے باب کی شروعات ثابت ہوا۔
اشتہار
سات دسمبر کی صبح چانسلر ولی برانٹ وارسا کے گیٹو میموریل پہنچے۔ یہ سابق جرمن نازی دور کے قبضے اور مظالم کے خلاف یہودیوں کی بے مثال جرات کی ايک یادگار ہے۔ ولی برانٹ نے حسب روایت پھول چڑھائے اور جرمن پرچم کے رنگوں والا ربن سیدھا کیا، پھر خاموشی کے ساتھ چند قدم پیچھے ہٹے۔ چند سیکنڈ گزرے۔ اور پھر وہ اپنے گھٹنوں پر آ گئے اور اپنا سر جھکا دیا۔ فوٹوگرافر وہاں موجود تھے اور وہ یہ تصویر لیتے ہوئے جانتے تھے کہ یہ تصویر تمام دنیا تک پہنچے گی اور تاریخ کا ايک اہم موڑ ثابت ہو گی۔
جرمن چانسلر وِلی برانٹ نے اپنی سوانح میں لکھا تھا، ''تاریخی جرمن پس منظر اور لاکھوں انسانوں کے قتل کا بوجھ، میں نے وہی کچھ کیا جو انسان تب کرتے ہیں، جب ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچتا۔‘‘
وہ گھٹنوں کے بل یوں ہوئے، جیسے چرچ میں جا کر گناہ گار ہوا کرتے ہیں۔ بہ ظاہر انہوں نے دعا کی کہ جرمن شہریوں کو معاف کر دیا جائے۔
آں جہانی ولی برانٹ کی 100 ویں سالگرہ
اس فوٹو گیلری کی مدد سے ہم جرمنی کے سابق چانسلر اور امن کے نوبل انعام یافتہ عظیم جرمن سیاستدان اور لیڈر کی زندگی پر نظر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: WBA im AdsD der FES
جب الفاظ ناکافی ہو جائیں
یہ تصویر 1970ء کی ہے، جس میں ولی برانٹ وارسا گیٹو میں نازی دور کے ظلم و تشدد کے شکار افراد کی یادگار کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر جرمن تاریخ کے اُس سیاہ باب پر ندامت کا اظہار کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تعاقب کے ڈر سے جلاوطنی
برانٹ کے والدین باقاعدہ رشتہ ازدواج میں نہیں بندھے تھے۔ اُن کا پیدائشی نام ہربرٹ فرام تھا۔ 1933ء میں آمر حکمران ہٹلر کے برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے اپنی شناخت اپنی والدہ کے نام کے ساتھ کر لی۔ برانٹ اُسی دور میں سیاسی تعاقب کا شکار ہونے کے ڈر سے فرار ہو کر اوسلو چلے گئے تھے۔ وہاں وہ بحیثیت صحافی کام کرتے رہے۔ وہاں وہ ہٹلر کے خلاف جلا وطن سوشل ڈیمو کریٹ جرمن باشندوں کی مزاحمت کو منظم کرتے رہے۔
تصویر: WBA im AdsD der FES
مغربی برلن کے میئر
1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد برانٹ اپنے وطن جرمنی لوٹے۔ وہ جرمنی کی پہلی پارلیمان کے رُکن بنے۔ 1957ء میں وہ برلن کے میئر بنے۔ اُنہی کے دور میں برلن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی مشہور زمانہ دیوار برلن کی تعمیر عمل میں آئی۔ برانٹ نے سر توڑ کوشش کی کہ برلن وفاقی جمہوریہ جرمنی کے ایک حصے کے طور پر مغربی جرمنی میں ہی رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کینیڈی کا دورہء برلن
دیوار برلن کی تعمیر کے دو سال بعد اُس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے برلن کا دورہ کیا۔ برلن کے میئر برانٹ اور اُس وقت کے وفاقی جرمن صدر کونراڈ آڈیناور کے ساتھ ایک کھُلی گاڑی میں سوار کینیڈی نے پورے برلن کا دورہ کیا۔ اپنے اس دورے کے اختتام پر کینیڈی نے ایک دھواں دار تقریر میں آزادی کی قدر و قیمت کو اُجاگر کیا۔ اس موقع پر اپنا مشہور زمانہ جرمن زبان کا فقرہ ادا کیا تھا، Ich bin ein Berliner ۔
تصویر: dpa
برانٹ کے معتمد
1960ء کے شروع ہی میں برانٹ نے اپنے قریبی ترین سیاسی رفیق ایگون بار کے ساتھ مل کر ’مفاہمت کے ذریعے تبدیلی‘ کے عنوان کے تحت مشرقی یورپ سے متعلق نئی پالیسی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ بار بعد میں برانٹ کے دورِ حکومت میں پارلیمانی وزیر بھی رہے۔ ان دونوں نے مشرقی یورپی ممالک کے ساتھ کشیدگی کی بجائے قربت اور دوستانہ تعلقات بحال کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ برانٹ جی ڈی آر کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Sven Simon
تیسری کوشش کے بعد چانسلر بننے میں کامیابی
1961ء اور 1965ء دونوں بار وفاقی پارلیمانی انتخابات میں چانسلر شپ کے لیے الیکشن لڑنے کے باوجود ولی برانٹ کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی تاہم وہ وزیر خارجہ کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ آخر کار 1969ء میں برانٹ بحیثیت چانسلر منتخب ہوئے۔ وہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے پہلے سوشل ڈیموکریٹ چانسلر تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن جرمن سربراہی اجلاس
مشرقی جرمن شہر ایرفُرٹ میں پہلی بار وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ اور جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک جی ڈی آر کے وزیر اعظم ولی سٹوف نے ملاقات کی۔ اس موقع پر مشرقی جرمن باشندوں نے مغربی جرمن چانسلر کا خوش دلی سے استقبال کیا۔ وہ جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے، اُس کے باہر ہزاروں مشرقی جرمن باشندے برانٹ کے دیدار کے منتظرتھے ۔ انہوں نے جس گرمجوشی اور مسرت کا اظہار کیا، وہ مشرقی جرمن قیادت کے لیے شرمندگی کا باعث تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امن کا نوبل انعام
دس دسمبر 1971ء کو ولی برانٹ کو اوسلو میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس اعزاز کا حقدار انہیں اُن کی مشرقی یورپی ممالک کے ساتھ دیرینہ دشمنی ختم کرتے ہوئے مفاہمت اور دوستی کی پالیسی کے تناظر میں ٹھہرایا گیا۔ برانٹ نے مشرقی ریاستوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور یہی پالیسی سرد جنگ کے دور میں مشرق و مغرب کے مابین کشیدگی میں کمی کا سبب بنی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
برانٹ کی پالیسیوں سے اختلاف
برانٹ کے سیاسی اتحاد میں شامل بہت سے پارلیمانی اراکین کو اعتراض برانٹ کی سابقہ مشرقی جرمن علاقوں سے دستبرداری کے فیصلے پر تھا۔ اپوزیشن نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں چانسلر شپ سے علیحدہ کرنے کے لیے مہم شروع کی۔ 1972ء میں ہونے والی ووٹنگ میں اپوزیشن کو غیر متوقع طور پر ناکامی ہوئی۔ بعد میں یہ راز کُھلا کہ Stasi نے پارلیمانی اراکین کو رشوت دے کر فیصلہ برانٹ کے حق میں کروا لیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
برانٹ کی اچانک دستبرداری
1974ء میں برانٹ چانسلر کے عہدے سے اچانک دستبردار ہو گئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس راز کا فاش ہونا بنی کہ برانٹ کے ایک قریبی ساتھی گنٹر گوئیلاؤم اور اُن کی اہلیہ قریب 20 سال سے وفاقی جمہوریہ جرمنی میں جاسوسی میں مصروف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ برانٹ کی چانسلر کے عہدے سے برطرفی کی دوسری وجوہات بھی تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان وجوہات میں برانٹ کا ڈپریشن کا شکار ہونا اور خواتین کے ساتھ تعلقات بھی شامل تھے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ابدی حریف
ولی برانٹ کے بعد ہیلمٹ شمٹ نئے چانسلر بنے۔ وہ برانٹ کی حکومت میں وزیر دفاع اور وزیر مالیات رہ چُکے تھے، اس کے باوجود دونوں سوشل ڈیمو کریٹ رہنما ہمیشہ ایک دوسرے کے حریف رہے۔ اسی وجہ سے ان دونوں کی پالیسیوں میں بنیادی فرق پایا جاتا تھا۔ برانٹ کو ایک نظریہ ساز سیاستدان کی حیثیت سے کچھ لوگ پسند اور دیگر نا پسند کرتے تھے۔ اس کے مقابلے میں شمٹ کو عملیت پسند ہونے کے باعث قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عالمی شہرت یافتہ سوشل ڈیموکریٹ
ولی برانٹ 1976ء میں انٹر نیشنل سوشلسٹ آرگنائزیشن کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے ان کی ملاقاتیں دنیا کے چند بڑے اشتراکی لیڈروں مثال کے طور پر فیدل کاسترو، میخائل گورباچوف اور PLO کے چیف یاسر عرفات سے رہیں۔ ولی برانٹ نے اس ادارے کو عالمی سطح پر وقار اور نام بخشا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آہنی پردے کا گرنا
9 نومبر 1989ء کو دیوار برلن منہدم ہوئی۔ یہ دیوار 28 برسوں تک برلن کو منقسم رکھے ہوئے تھی۔ دیوار گرنے کے اگلے روز صبح سویرے ہی ولی برانٹ بون سے برلن پہنچے۔ تب ایک تقریر میں برانٹ نے جرمنی کے دوبارہ اتحاد کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا، "ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہمیشہ مشترکہ طور پر ہی ترقی کرتی ہیں"۔
تصویر: WBA im AdsD der FES
13 تصاویر1 | 13
سوشل ڈیموکریٹک جماعت سے تعلق رکھنے والے وِلی برانٹ نے خود بھی نازیوں کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ اس اشارے سے انہوں نے جیسے اپنی قوم کی معافی کی دعا کی۔ تو کیا گھٹنوں کے بل کھڑے ہونا ایک طے شدہ عمل تھا؟ برانٹ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ ''میرے قریبی ساتھی بھی نہیں جانتے تھے۔ میرے بالکل ساتھ کھڑے لوگ بھی رپورٹروں اور فوٹوگرافروں کی طرح حیران تھے۔‘‘
پولستانی حکومت کے لیے بھی يہ ایک حیرت انگيز منظر تھا۔ وارسا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر کرسیسٹوف رشنیویچس کہتے ہیں، ''اس لمحے تک جرمنز کو 'شیطان‘ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ سمجھا جاتا تھا کہ وہ جنگی جنون میں مبتلا لوگ ہیں۔ ایسے میں ایک جرمن چانسلر اپنے مخالفین کو گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر ایک نیا اشارہ دیتا ہے۔‘‘
پروفیسر رشنیویچس اور پولستانی حکومت نے اس عمل کو دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کا عندیہ سمجھا، تاہم پارٹی پروپیگنڈا موجود تھا، جس نے جرمنی کے تشخص پر نظرثانی کے اس موقع کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zuchowicz
9 تصاویر1 | 9
اکثریت کے لیے غیر اہم شے
پروفیسر رشنیویچس کے مطابق، ''عام افراد کو ذرا سا بھی علم نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔‘‘ جرمن چانسلر کی گھٹنوں کے بل ہو کر تعظیم اور معذرت کا منظر پیش کرتی یہ تصویر پولستانی اخباروں میں شائع نہیں ہوئی تھی۔ بعد میں تاہم برانٹ کی مفاہمت کی پالیسی نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی راہ ہم وار کی۔
وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ فاؤنڈیشن سے وابستہ تاریخ دان کرسٹینا میئر کے مطابق برانٹ کے اس اشارے نے ایک ٹیبو توڑ دیا تھا۔ ''جرمنی کے نازی ماضی کو دیکھا جائے، تو آپ اس اشارے کو جرمن معاشرے کے لیے گیم چینجر کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت تک بھی جرمن معاشرے میں ایک بڑی تعداد ان افراد کی تھا، جو نازیوں کے ہاتھوں ہونے والے بدترین جرائم پر معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سن 1970 میں کرائے گئے ایک سروے میں مغربی جرمنی کے ہر دوسرے شہری نے وِلی برانٹ کے اس عمل کو رد کیا تھا اور اسے خواہ مہ خواہ کا کام قرار دیا تھا۔‘‘