1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور چین کے تعلقات میں توسیع

شامل شمس29 مارچ 2014

جرمنی کےدورے پر آنے والے چینی صدر شی جن پِنگ نے یورپ کی سب سے مستحکم معیشت کے ساتھ کئی اقتصادی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید گہرائی پیدا ہونے کی توقع ہے۔

REUTERS/Fabrizio Bensch
تصویر: Reuters

گزشتہ روز چینی صدر شی جن پنگ نے برلن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ملاقات کی۔ جرمن دارالحکومت برلن میں آمد پر صدر شی کے جرمن ہم منصب یوآخم گاؤک نے استقبال کیا۔ چانسلر میرکل سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ یوکرائن کے معاملے پر چین مغرب یا روس کسی کا ساتھ نہیں دے گا اور غیر جانب داری برتے گا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ یوکرائن کے معاملے پر چین عالمی سطح پر روس کی حمایت کرے گا۔

چینی صدر نے آج ہفتے کے روز جرمنی کے ساتھ تجارت کے فروغ کے حوالے سے متعدد سمجھوتوں پر دستخط بھی کیے۔ یہ معاہدے زراعت، توانائی اور کار سازی کے شعبوں میں کیے گئے۔ ایک مشترکہ بیان میں اس حوالے سے یہ کہا گیا: ’’جرمنی اور چین خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور کے حوالے سے اپنے اسٹریٹیجک تعاون کو فروغ دینے پر متفق ہوئے ہیں جس کے ذریعے علاقائی اور عالمی تنازعات کے حل میں مدد ملے گی۔‘‘

جرمن حکومت نے امید ظاہر کی ہے کہ چین کی جانب سے کریمیا کے روس سے الحاق کے معاملے پر اقوام متحدہ کے ریفرنڈم سے غیر حاضری اس بات کی دلیل ہے کہ چین اس معاملے پر اپنے روایتی ساتھی سے فاصلہ اختیار کر چکا ہے۔

چینی صدر کی جرمن رہنماؤں سے ملاقات کے دوران چین میں انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ بھی زیر بحث رہا۔ اس موقع پر جرمن صدر گاؤک نے کہا کہ انسانی حقوق تمام دنیا میں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ انسانی حقوق پر بات چیت پر بہر حال معاشی امور حاوی رہے۔

جرمنی یورپی یونین کے بلاک میں تجارت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کا سب سے بڑا ساتھی ہے۔ اسی باعث شی کے ساتھ اس دورے پر چینی کاروباری شخصیات کا ایک بڑا وفد بھی تھا۔ جرمن صنعتی اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں دس لاکھ نوکریوں کا دآر ومدار چین کے ساتھ برآمدات پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم اس وقت ایک سو اکسٹھ اعشاریہ چھ بیلن ڈالر بنتا ہے جو کہ سن انیس سو بہتر کے مقابلے میں پانچ سو اسی گنا زیادہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں