ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے شام میں دہشت گرد تنظیم داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے جرمن دستے بھیجنے کا باقاعدہ مطالبہ کیا ہے۔ جیمز جیفری کے مطابق اتحادیوں کو شامی اپوزیشن کو تکنیکی معاونت فراہم کرنا چاہیے۔
اشتہار
امریکا کے شام کے لیے خصوصی مندوب جیمز جیفری نے جرمنی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں کرد ملیشیا کی زیر قیادت اپوزیشن کے اتحاد سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کو دہشت گرد تنظیم داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے تربیت فراہم کرے۔ امریکا کا مطالبہ ہے کہ جرمن شامی اپوزیشن اتحاد کی تربیت اور معاونت کے لیے اپنے عسکری ماہرین کے علاوہ بری فوج کے دستے بھی شام بھیجے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو دیے گئے انٹرویو میں جیمز جیفری نے کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ جرمن فوجی جزوی طور پر شام میں تعینات امریکی فوجیوں کی جگہ لیں۔‘‘ ڈی پی اے اور جرمن اخبار 'ویلٹ ام زونٹاگ‘ کے مطابق امریکی خصوصی مندوب نے یہ بھی بتایا کہ انہیں امید ہے کہ جرمن حکام اس ضمن میں رواں ماہ کے آخر تک اپنے فیصلے سے انہیں آگاہ کر دیں گے۔
دنیا کی دس سب سے بڑی فوجیں
آج کی دنیا میں محض فوجیوں کی تعداد ہی کسی ملک کی فوج کے طاقتور ہونے کی نشاندہی نہیں کرتی، بھلے اس کی اپنی اہمیت ضرور ہے۔ تعداد کے حوالے سے دنیا کی دس بڑی فوجوں کے بارے میں جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Reuters/F. Aziz
چین
سن 1927 میں قائم کی گئی چین کی ’پیپلز لبریشن آرمی‘ کے فوجیوں کی تعداد 2015 کے ورلڈ بینک ڈیٹا کے مطابق 2.8 ملین سے زیادہ ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز ’’آئی آئی ایس ایس‘‘ کے مطابق چین دفاع پر امریکا کے بعد سب سے زیادہ (145 بلین ڈالر) خرچ کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/Xinhua
بھارت
بھارت کی افوج، پیرا ملٹری اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ایسے اہلکار، جو ملکی دفاع کے لیے فوری طور پر دستیاب ہیں، کی تعداد بھی تقریبا اٹھائیس لاکھ بنتی ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ اکاون بلین ڈالر سے زائد ہے اور وہ اس اعتبار سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters
روس
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق روسی فیڈریشن قریب پندرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے تاہم سن 2017 میں شائع ہونے والی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق روسی فوج کے فعال ارکان کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب بنتی ہے اور وہ قریب ساٹھ بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
شمالی کوریا
شمالی کوریا کے فعال فوجیوں کی مجموعی تعداد تقربیا تیرہ لاکھ اسی ہزار بنتی ہے اور یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Wong Maye-E
امریکا
آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق 605 بلین ڈالر دفاعی بجٹ کے ساتھ امریکا سرفہرست ہے اور امریکی دفاعی بجٹ کی مجموعی مالیت اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ تاہم ساڑھے تیرہ لاکھ فعال فوجیوں کے ساتھ وہ تعداد کے حوالے سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
پاکستان
پاکستانی فوج تعداد کے حوالے سے دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستانی افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دیگر ایسے سکیورٹی اہلکاروں کی، جو ملکی دفاع کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہیں، مجموعی تعداد نو لاکھ پینتیس ہزار بنتی ہے۔ آئی آئی ایس ایس کے مطابق تاہم فعال پاکستانی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے کچھ زائد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
مصر
ورلڈ بینک کے مطابق مصر آٹھ لاکھ پینتیس ہزار فعال فوجیوں کے ساتھ اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تاہم آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں مصر کا دسواں نمبر بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
برازیل
جنوبی امریکی ملک برازیل سات لاکھ تیس ہزار فوجیوں کے ساتھ تعداد کے اعتبار سے عالمی سطح پر آٹھویں بڑی فوج ہے۔ جب کہ آئی آئی ایس ایس کی فہرست میں برازیل کا پندرھواں نمبر ہے جب کہ ساڑھے تئیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ وہ اس فہرست میں بھی بارہویں نمبر پر موجود ہے۔
تصویر: Reuters/R. Moraes
انڈونیشیا
انڈونیشین افواج، پیرا ملٹری فورسز اور دفاعی سکیورٹی کے لیے فعال فوجیوں کی تعداد پونے سات لاکھ ہے اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R.Gacad
جنوبی کوریا
دنیا کی دسویں بڑی فوج جنوبی کوریا کی ہے۔ ورلڈ بینک کے سن 2015 تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس کے فعال فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ چونتیس ہزار بنتی ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق قریب چونتیس بلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ جنوبی کوریا اس فہرست میں بھی دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/Yonhap/S. Myung-Gon
10 تصاویر1 | 10
شام کے لیے امریکی خصوصی مندوب جیمز جیفری جمعہ پانچ جولائی کے روز جرمنی کے دورے پر برلن پہنچے تھے۔ اس دورے کا مقصد برلن حکومت کو شامی تنازعے میں عسکری اور مالی تعاون فراہم کرنے پر قائل کرنا تھا۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ امریکا نے جرمنی سے کتنی تعداد میں فوجی شام میں تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈی پی اے کو دیے گئے انٹرویو میں اعلیٰ امریکی سفارت کار نے یہ بھی واضح کیا کہ شام میں تعینات کیے جانے والے فوجی اہلکار داعش کے جنگجوؤں سے لڑائی میں براہ راست حصہ نہیں لیں گے لیکن ان پر حملے کی صورت میں دوبدو لڑائی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا، ’’بہتر یہ ہے کہ مقامی شامی عسکری گروہوں کی مدد سے داعش کو پسپا کیا جائے لیکن بین الاقوامی افواج کی ایک خاص تعداد میں موجودگی ان فورسز کو تربیت اور تکنیکی معاونت فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘
شام اور عراق میں داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد میں اسی سے زائد ممالک شامل ہیں اور اس مقصد کے لیے فی الوقت جرمن عسکری ماہرین اور جنگی جہاز عراق میں تعینات ہیں۔ جون میں عراق کے دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے عندیہ دیا تھا کہ جرمن فوجی مشن کی تعیناتی کی مدت اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے لیکن وقت آنے پر اس تاریخ میں توسیع کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
(بین نائیٹ) ش ح / ا ا
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔