1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اپنے ہاں ’دہشت گردوں‘ پر توجہ دے، ترک صدر ایردوآن

مقبول ملک روئٹرز، اے ایف پی
21 جولائی 2017

نیٹو کے رکن دو اتحادی ملک ہونے کے باوجود ترکی اور جرمنی کے مابین دوبارہ پیدا ہونے والی کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور ترک صدر ایردوآن نے کہا ہے کہ برلن حکومت ’ان دہشت گردوں پر توجہ دے، جنہیں اس نے پناہ دے رکھی ہے‘۔

ترک صدر ایردوآنتصویر: Reuters/W. Rattay

ترک دارالحکومت انقرہ اور جرمن دارالحکومت برلن سے جمعہ اکیس جولائی کے روز موصولہ مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ موجودہ ترک جرمن کچھاؤ فریقین کے مابین گرما گرم بیان بازی کے باعث شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئلتصویر: Getty Images/S. Gallup

ترک صدر ایردوآن نے جمعے کے روز استنبول میں اپنے ایک خطاب کے دوران کہا کہ جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے کل جمعرات کے روز جرمن کمپنیوں کی طرف سے ترکی میں سرمایہ کاری پر پڑنے والے منفی اثرات سے متعلق جو بات کہی تھی، وہ قابل مذمت ہے اور برلن حکومت کو دراصل خود اپنی طرف دھیان دینا چاہیے۔

روئٹرز نے لکھا ہے کہ صدر ایردوآن نے استنبول میں اپنے ایک خطاب میں کہا، ’’جرمن وزارت خارجہ نے جرمن سیاحوں کو ترکی کے سفر سے متعلق جو تنبیہ جاری کی ہے، وہ بھی قطعی بے بنیاد ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ برلن حکومت ان دہشت گردوں پر بھی توجہ دے، جن کو اس نے اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔‘‘

نئی کشیدگی کا نتیجہ: جرمنی کا ترکی کے خلاف اقدامات کا اعلان

ترکی میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدت حراست میں توسیع

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، ایک سال بیت گیا

روئٹرز کے مطابق اس بیان سے ترک صدر کی مراد وہ متعدد سابقہ ترک فوجی اور ان کے اہل خانہ ہیں، جنہوں نے ترکی میں گزشتہ برس جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دے رکھی ہیں اور جو اس وقت جرمنی ہی میں مقیم ہیں۔

ترک وزیر اعظم بن علی یلدرمتصویر: picture alliance/abaca/M. Aktas

دوسری طرف آج جمعے کے روز جرمن میڈیا میں سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ ترکی اپنے ہاں مبینہ طور پر کم از کم 68 ایسے جرمن اداروں کے بارے میں چھان بین کر رہا ہے، جن پر دہشت گرد گروپوں کی حمایت کا شبہ ہے۔ اس سلسلے میں جرمن میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ان اداروں میں مرسیڈیز گاڑیاں بنانے والی کمپنی ڈائملر اور بہت بڑی کیمیکلز فرم BASF سمیت کئی بڑے جرمن نام بھی شامل ہیں۔

اس بارے میں بعد ازاں ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے ان رپورٹوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جرمن کمپنی کے خلاف ترکی میں کسی دہشت گرد گروہ کی مبینہ حمایت کے سلسلے میں کوئی چھان بین نہیں کی جا رہی۔ یلدرم نے یہ بھی کہا کہ ترکی اور جرمنی کو اس شدید تر ہوتے جا رہے بحران کا حل مل کر اور بات چیت کے ذریعے نکالنا چاہیے۔

جرمن وزیر خزانہ وولفگانگ شوئبلےتصویر: Reuters/R. Ward

ترکی: ناکام فوجی بغاوت کا ایک سال، ایردوآن مزید بااختیار

جرمنی نے ترک صدر کی درخواست مسترد کر دی

کئی ترک فوجی اہلکاروں، اہل خانہ کو ’جرمنی نے پناہ دے دی‘

آج ہی جرمنی میں داخلی سلامتی کے ذمے دار خفیہ ادارے کے سربراہ ہنس گیورگ مآسین کا یہ بیان بھی ملکی میڈیا میں شائع ہوا، جس کے مطابق ترکی نے امریکا میں مقیم ترک مسلم مبلغ فتح اللہ گولن کے مبینہ حامیوں کو شناخت کرنے کے لیے جرمن سرزمین پر جاسوسی کی کارروائیاں کیں، جن کے باعث ایک نیٹو اتحادی ہونے کے باوجود ترکی خود اپنی ہی سرگرمیوں کی وجہ سے عملاﹰ جرمنی کا ’مخالف ملک‘ بن چکا ہے۔

دریں اثناء اسی تنازعے میں جرمن وزیر خزانہ وولفگانگ شوئبلے نے بھی آج اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ترکی میں اب ’قانون کی حکمرانی نہیں رہی‘۔ شوئبلے کے مطابق موجودہ ترکی اب سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ ریاست کی طرح ہو چکا ہے، جہاں لوگوں کو اندھا دھند گرفتار کیا جاتا تھا اور انہیں ان کے وکلاء تک رسائی کا موقع بھی نہیں ملتا تھا۔

برلن اور انقرہ کے مابین تازہ ترین کشیدگی کی وجہ انسانی حقوق کے سرکردہ جرمن کارکن پیٹر شٹوئڈنر کی ترکی میں دہشت گردی کی حمایت کے الزام میں گرفتاری بنیتصویر: picture alliance/dpa/Privat/TurkeyRelease Germany

وولفگانگ شوئبلے نے جرمنی کے کثیرالاشاعت روزنامے ’بِلڈ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’آج کے ترکی کو دیکھ کر مجھے GDR یاد آ جاتا ہے۔‘‘ وزیر خزانہ کا مطلب سابقہ کمیونسٹ مشرقی جرمن ریاست تھی، جو جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک یا مختصراﹰ جی ڈی آر کہلاتی تھی۔

’گولن سے روابط‘: ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ کی گرفتاری

جرمنی سے ’بھیک‘ نہیں مانگیں گے، ترک وزیر خارجہ

ترک ریفرنڈم: نتائج قانوناﹰ کتنے درست ہیں؟ ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

اسی ترک جرمن کشیدگی کے بارے میں روزنامہ ’بِلڈ‘ نے اپنی جمعہ اکیس جولائی کی اشاعت میں ایک سٹوری کی ہیڈلائن یہ لگائی، ’’ترکی کا بحران:کیا اب ایردوآن چھٹیاں گزارنے والوں کو گرفتار کر رہے ہیں؟‘‘

اس کے ردعمل میں صدر رجب طیب ایردوآن کی پارٹی برائے انصاف اور ترقی یا اے کے پی کے ایک رکن پارلیمان نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’ایسی صحافت نہ صرف تعطیلاتی سیاحت کے لیے ترکی جانے والے جرمن باشندوں کو ڈرانے کی کوشش ہے بلکہ یوں نسل پرستانہ منافرت کو بھی ہوا دی جا رہی ہے۔‘‘

’ترکی کی بجائے جرمن حکومت مساجد کو مالی امداد فراہم کرے‘

01:05

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں