جرمنی میں سرگرم مہاجرین دوست گروپوں نے چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پناہ کے متلاشی مزید تارکین وطن کو جرمنی میں آباد کرنے کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کرے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جرمنی میں انسانی حقوق کے سرکردہ مہاجرین دوست گروپوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ برلن حکومت کو اٹلی اور یونان میں پھنسے ہوئے مہاجرین اور تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ دینا چاہیے۔ ایسے گروپوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی سطح پر طے پانے والی ڈیل کے تحت جرمنی نے ان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کا عہد کیا تھا، جسے پورا کیا جانا چاہیے۔
جرمنی کے ایک نمایاں مہاجر دوست گروپ Pro Asyl کے سربراہ گنٹر بُرک ہارڈ کے بقول، ’’استقبالیہ مراکز میں گنجائش ہے، لیکن جرمنی میں مزید مہاجرین کی آباد کاری کے حوالے سے سیاسی عزم کی کمی پائی جا رہی ہے۔‘‘ سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں جرمنی میں ایک ملین سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن آئے تھے۔
تاہم یورپی یونین کی سطح پر طے پانے والی ایک ڈیل کی تحت جرمنی نے عہد کیا تھا کہ وہ ستمبر تک اٹلی یا یونان میں پھنسے ہزاروں مہاجرین میں سے مزید ساڑھے ستائیس ہزار مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے گا لیکن ابھی تک صرف دو ہزار بیالیس تارکین وطن کو ہی جرمنی آنے کی اجازت دی گئی ہے۔
جرمنی میں ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نامی میڈیکل چیریٹی تنظیم کے سربراہ فلوریان ویسٹ فال نے اصرار کیا ہے کہ جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کو ان مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل کرنا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ ان ممالک کو ’ری لوکیشن سپاٹس‘ کو فوری طور پر فعال بنانا چاہیے تاکہ اٹلی یا یونان میں محصور مہاجرین کو دوسرے ممالک میں آباد کیا جا سکے۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
8 تصاویر1 | 8
ستمبر سن دو ہزار پندرہ میں اٹھائیس رکنی یورپی یونین نے ایک ڈیل کے تحت ایسے ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کو رکن ممالک میں منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جو دشوار گزار راستوں سے ہو کر یونان یا اٹلی پہنچے تھے۔ اس ڈیل کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس بحران میں اٹلی اور یونان پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
تاہم یورپی یونین کے کئی رکن ممالک اس ڈیل کے تحت مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے مخالف ہیں۔ آسٹریا، ڈنمارک اور ہنگری نے اس ڈیل کے تحت ابھی تک کسی ایک بھی مہاجر کو اپنے ہاں پناہ نہیں دی۔ اس پروگرام کے تحت فرانس نے سب سے زیادہ یعنی دو ہزار چار سو پینتالیس تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔
گنٹر بُرک ہارڈ کے بقول اس ڈیل کے تحت یورپ کی طاقت ور ترین معیشت جرمنی کا ساڑھے ستائیس ہزار افراد کو پناہ نہ دینا ایک ’مضحکہ خیز‘ بات معلوم ہوتی ہے۔ جرمنی میں پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے ایک درخواست پر دستخط بھی کیے ہیں کہ برلن حکومت کو اس تناظر میں اپنی ذمہ داری نبھانا چاہیے۔ یہ درخواست وفاقی وزارت داخلہ کے حوالے کر دی گئی ہے تاکہ جرمن سیاستدان اس مطالبے پر باقاعدہ غور کر سکیں۔