جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس تہران پہنچ چکے ہیں۔ وہ ایسے تعمیری راستوں کی تلاش میں ہیں، جن پرعمل کرتے ہوئے 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کو بچایا جا سکے۔ امریکا پہلے ہی اس معاہدے سے دستبردار ہو چکا ہے۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس تہران میں آج اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف اور ایرانی سربراہ مملکت حسن روحانی سے ملاقات کریں گے۔ ان ملاقاتوں میں عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین طے پانے والے جوہری معاہدے کے موضوع پر ہی بات ہو گی۔ گزشتہ برس امریکا کی جانب سے اس معاہدے سے دستبرداری کے بعد سے صورتحال انتہائی نازک ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ ایران پراقتصادی پابندیاں بحال کر چکی ہے۔
ماس کے تہران پہنچنے سے پہلے اتوار کو تہران حکومت نے کہا تھا کہ جرمن وزیر کو اس سلسلے میں بیانات کے بجائے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے تاہم ہائیکو ماس نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس معاہدے کو بچانے کے لیے کوئی نہ کوئی تعمیری راستہ تلاش کر لیا جائے گا۔ ماس کے بقول امریکا کی جانب سے اس معاہدے سے الگ ہونے کے بعد یورپی ممالک نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا، ''کیونکہ ہم اس معاہدے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
ماس نے مزید کہا کہ تہران میں مذاکرات کے دوران وہ چاہتے ہیں،''ایسے راستوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، جن پر چلتے ہوئے ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں اور اسی طرح ایران بھی۔‘‘ جرمن وزیر کے بقول انہیں یقین ہے کہ یہ ایران کے سیاسی مفاد میں بھی ہو گا کہ مستقبل میں بھی جوہری معاہدے پر عملدرآمد جاری رہے۔
خطے کی صورتحال
خلیجی خطے میں جنگ کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں اور اس صورتحال نے دنیا کے متعدد ممالک کو پریشان کیا ہوا ہے۔ گزشتہ مہینوں کے دوران ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیاں سخت کر دی ہیں۔ واشنگٹن کا دعوی ہے کہ ایران خطے میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتا ہے اور ایران پر یہ بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں تیل بردار چار بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے۔
خليجی خطے کی حاليہ کشيدگی، کب کب، کيا کيا ہوا
امريکا کی جانب سے فوجيوں کی تعداد میں اضافہ اور عسکری ساز و سامان کی تعيناتی، سعودی تنصيبات پر حملے و ايران کی دھمکياں۔ خليج کے خطے ميں اس وقت شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ چند حاليہ اہم واقعات پر ڈی ڈبليو کی تصاويری گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
امريکا کی جوہری ڈيل سے دستبرداری، کشيدگی کی نئی لہر کی شروعات
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران کی بے بسی اور پھر جوہری ڈيل سے دستبرداری
آنے والا وقت ايرانی اقتصاديات کے ليے بے حد مشکل ثابت ہوا۔ افراط زر اور ديگر معاشی مسائل کے سائے تلے دباؤ کی شکار تہران حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل ميں اعلان کيا کہ آٹھ مئی کو ايران اس ڈيل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس پيشرفت کے بعد ڈيل ميں شامل ديگر فريقين نے ايران پر زور ديا کہ ڈيل پر عملدرآمد جاری رکھا جائے تاہم تہران حکومت کے مطابق امريکا پابنديوں کے تناظر ميں ايسا ممکن نہيں۔
امريکی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے پانچ مئی کو اعلان کيا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے ’يو ايس ايس ابراہم لنکن‘ نامی بحری بيڑہ اور بمبار طيارے مشرقی وسطی ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔ اس اقدام کی وجہ مشرق وسطی ميں ’پريشان کن پيش رفت‘ بتائی گئی اور آئندہ دنوں ميں پيٹرياٹ ميزائل دفاعی نظام اور بی باون لڑاکا طيارے بھی روانہ کر ديے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Mass Communication Specialist 3r/U.S. Navy/AP/dpa
سعودی تنصيبات پر حملے، ايران کی طرف اشارے مگر تہران کی ترديد
متحدہ عرب امارات سے متصل سمندری علاقے ميں دو سعودی آئل ٹينکروں کو بارہ مئی کے روز حملوں ميں شديد نقصان پہنچا۔ يہ حملے فجيرہ کے بندرگاہی شہر کے قريب ہوئے جو آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ايران يہ کہتا آيا ہے کہ امريکی جارحيت کی صورت ميں وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ايران نے سعودی آئل ٹينکروں پر حملے کو ’قابل مذمت اور خطرناک‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
مسلح تنازعے سے بچاؤ کے ليے سفارت کاری
تيرہ مئی سن 2019 کو جوہری ڈيل ميں شامل يورپی فريقين نے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے ملاقات کی۔ برطانيہ نے ’حادثاتی طور پر جنگ چھڑ جانے‘ سے خبردار بھی کيا۔ ايک روز بعد ہی پومپيو نے کہا کہ امريکا بنيادی طور پر ايران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہيں۔ پھر ايرانی سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے بھی کشيدگی ميں کمی کے ليے بيان ديا کہ امريکا کے ساتھ جنگ نہيں ہو گی۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
امريکا ايران کشيدگی، عراق سے متاثر
اس پيش رفت کے بعد پندرہ مئی کو امريکا نے عراق ميں اپنے سفارت خانے ميں تعينات تمام غير ضروری عملے کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر ديے۔ اس فيصلے کی وجہ ايران سے منسلک عراقی مليشياز سے لاحق خطرات بتائی گئی۔ جرمنی اور ہالينڈ نے بھی عراقی فوجيوں کی تربيت کا عمل روکنے کا اعلان کر ديا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
امريکی صدر کی اب تک کی سخت ترين تنبيہ
انيسی مئی کو امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک بيان ميں ايران کو خبردار کيا کہ امريکی مفادات و امريکا کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے کی کوشش کے نتيجے ميں ايرن کو تباہ کر ديا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ايران لڑنا چاہتا ہے، تو يہ اس سرزمين کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
تصویر: Imago/UPI//Imago/Russian Look
خطے کے معاملات ميں مبينہ مداخلت پر ايران پر کڑی تنقيد
گو کہ پچھلے دنوں دونوں ممالک نے مقابلتاً نرم بيانات بھی ديے اور کشيدگی کم کرنے سے متعلق بيانات سامنے آئے تاہم کشيدگی اب تک برقرار ہے۔ انتيس مئی کو جان بولٹن نے کہا کہ انہيں تقريباً يقين ہے کہ سعودی آئل ٹينکروں پر حملے ميں ايران ملوث ہے۔ اسی روز اسلامی تعاون تنظيم کے اجلاس ميں بھی سعودی وزير خارجہ نے خطے ميں ايرانی مداخلت پر کڑی تنقيد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
8 تصاویر1 | 8
ایرانی اعلان
ايرانی حکومت اپنی جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کے ليے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے شدہ معاہدے کی بعض شرائط یا ذمہ داریوں سے جزوی دستبرداری کا فیصلہ کر چکی ہے۔ ایران کی جانب سے مئی کے اوائل میں اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک برطانيہ، چين، فرانس، جرمنی اور يورپی يونين کو خطوط لکھ کر باضابطہ طور پرمطلع کیا گیا تھا۔ تہران کے مطابق افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو بڑھانے پر عائد پابندی کو ختم کر دیا جائے گا جبکہ بھاری پانی کا بھی ذخیرہ بڑھایا جائے گا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے ساتھ صرف جوہری معاہدے کے موضوع پر مذاکرات کیے جائیں گے کیونکہ اس کے علاوہ تمام موضوعات غیر اہم ہیں اور ان پر بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔
یورپی شہری ایران کی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں