جرمن حکومت نے ایغور مسلم مہاجرین کی چین واپسی کا عمل روک دیا ہے۔ چین کے شمالی مغربی صوبے سینکیانگ میں اس مسلم اقلیت کو امتیازی سلوک اور شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اشتہار
جرمن اخبار ذُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ کے مطابق برلن حکومت نے ایغور مسلم مہاجرین کی چین واپسی کا عمل فوری طور پر ترک کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وزارت داخلہ نے یہ معلومات جرمنی کی گرین پارٹی کی درخواست پر فراہم کی ہیں۔ ایغور مہاجرین کے حوالے سے یہ فیصلہ جرمنی کی وفاقی وزارت برائے مہاجرت و پناہ گزین (بامف) کی ایک رپورٹ کے بعد کیا گیا ہے۔
اپریل میں ایک تئیس سالہ ایغور مہاجر لڑکے کو انتظامی غلطی کی وجہ سے چین واپس بھیج دیا گیا تھا۔ بامف کے مطابق انہوں نے اس حوالے سے متعلقہ ادارے کو ایک فیکس کی تھی لیکن میونخ کی مقامی انتظامیہ کے مطابق انہیں ایسی کوئی فیکس نہیں ملی تھی، جس میں یہ کہا گیا ہو کہ متاثرہ ایغور لڑکے کو واپس چین بھیجنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس قانونی غلطی کو درست کرنے کے لیے اس ایغور لڑکے کو دوبارہ جرمنی لانا ضروری ہے لیکن ابھی تک کسی کو بھی یہ علم نہیں ہے کہ چین میں وہ لڑکا کدھر گیا ہے؟ ایسے بھی شکوک و شبہات ہیں کہ چینی ادارے اسے اپنی تحویل میں لے چکے ہیں۔
ترک نسل ایغور مسلمان اقلیت چین کے مغرب میں واقع نیم خود مختار علاقے سینکیانگ میں آباد ہے۔ لیکن چین خاص طور پر اس علاقے میں ہان نسل کے چینیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور ایغور اقلیت کو بڑے منظم طریقے سے دبایا جا رہا ہے۔
ماہرین کے اندازوں کے مطابق چین اس خطے میں ’دوبارہ تعلیم‘ کے نام پر بنائے گئے کیمپوں میں لاکھوں ایغور مسلمانوں کی ذہن سازی میں مصروف ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران چینی نسل کے ہان اور ایغور نسل افراد کے مابین ہونے والے فسادات میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔