جرمنی: ایک افغان کا اچھا کام تمام افغانوں کے لیے باعث فخر
29 جولائی 2016حال ہی میں مبینہ طور پر دائیں بازو کے ایک انتہا پسند نوجوان نے جرمن شہر میونخ میں اولمپیا شاپنگ مال کے باہر لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے نو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس شاپنگ سینٹر کے اندر ایک بیس سالہ افغان نوجوان امیر نجار زادہ گارڈ کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔
جیسے ہی اُس روز فائرنگ شروع ہوئی، نذیر زادہ نے شاپنگ سینٹر میں بھاگ کر داخل ہونے والے تقریباً دو سو خوفزدہ لوگوں کو حفاظت کی غرض سے نیچے تہ خانے میں پہنچا دیا۔
امیر نجار زادہ افغانستان سے بھاگ کر آیا ہوا ایک مہاجر ہے اور گزشتہ ساڑھے تین برسوں سے جرمنی میں رہ رہا ہے۔ ایک ایسی فضا میں، جس میں جرمن معاشرے کے اندر مہاجروں اور مقامی باشندوں کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے اندیشے سر اٹھا رہے ہیں اور ایک ایسے ہفتے کے دوران، جس میں مہاجرین کی جانب سے کیے جانے والے پَے در پَے حملوں نے جرمنی کو ہلا کر رکھ دیا، نذیر زادہ کا اقدام ایک مثبت پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں امیر نجار زادہ نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ انسانیت کے نام پر کیا جانے والا اُس کا اقدام ایک ایسی تصویر پیش کر رہا ہے، جو اُس سے بالکل الٹ ہے، جو یورپ میں دہشت گردی کرنے والے حملہ آور اپنی کارروائیوں سے اپنے آبائی ملکوں کا نام بدنام کرتے ہوئے پیش کر رہے ہیں۔
امیر نجار زادہ نے ڈی ڈبلیو کے امان اللہ جواد کو بتایا: ’’حقیقت میں یہ کوئی اتنا بڑا کام نہیں تھا، جو میں نے کیا۔ میرے بس میں ہوتا تو مَیں حملہ آور پر قابو پا کر اُس سے ہتھیار چھین لیتا لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ ہاں، اتنا میں نے ضرور کیا کہ بچوں اور ایک حاملہ عورت سمیت بڑی تعداد میں لوگوں کو دو منزلیں نیچے ایک محفوظ جگہ پر پہنچا دیا۔‘‘
اُس نے بتایا کہ اُن لمحات میں اُس کے دماغ میں وہ ہولناک مناظر گردش کر رہے تھے، جو دہشت گردوں کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کے دوران دیکھنے میں آتے رہے تھے۔ اُس نے بتایا کہ وہ خود بھی خوفزدہ تھا لیکن اپنے سے زیادہ اُسے وہاں موجود لوگوں کی سلامتی کا ڈر تھا: ’’اُس لمحے مجھے یہی ڈر لگا ہوا تھا کہ کہیں حملہ آور عمارت کے اندر آ کر معصوم لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچائے، میری اپنی زندگی اُس وقت اہم نہیں تھی۔ سکیورٹی گارڈ کے طور پر دوسروں کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے۔‘‘