مہاجر اور مسلم مخالف جرمنی سیاسی جماعت (اے ایف ڈی) نے صحافیوں سے کہا ہے کہ اگر وہ پارٹی اجلاس کی رپورٹنگ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے اپنی نجی معلومات سے آگاہ کرنا ہو گا۔
اشتہار
جرمن پارلیمان کا حصہ بننے والی نئی جماعت آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لانڈ یعنی جرمنی کے لیے متبادل ( اے ایف ڈی) نے صحافیوں سے کہا ہے کہ اگر وہ دسمبر میں ہونے والے پارٹی اجلاس میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے سیاسی نظریات اور قومیت کی تفصیلات سے آگاہ کرنا ہو گا۔ اسے خصوصی ڈیٹا کا نام دیا گیا ہے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
اخبار اشٹٹگارٹر کے مطابق ،’’اس اجلاس میں شرکت کے لیے صحافیوں کو اپنے مذہبی عقائد اور سیاسی سوچ کے بارے میں بتانا ہو گا۔‘‘
اس مقصد کے لیے اے ایف ڈی نے آن لائن رجسٹریشن فارم جاری کیا ہے، جس میں ’’رضامندی یا اتفاق رائے کا ایک اعلامیہ‘‘ بھی موجود ہے۔ اس اعلامیے کو تسلیم کرنے کی صورت میں صحافی کے کوائف ایک خصوصی ڈیٹا سینٹر میں محفوظ ہو جائیں گے۔
اس تناظر میں اے ایف ڈی نے کوائف کے ملکی قانون کی شق نمبر نو کا حوالہ دیا ہے، جس میں نسلی اور قومی پس منظر، سیاسی نظریات، مذہبی اور فلسفیانہ عقائد کے علاوہ صحت اور جنسی رجحان کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ اے ایف ڈی کے مطابق یہ معلومات صرف پارٹی کے مقاصد کے لیے استعمال کی جائیں گی۔‘‘
اخبار اشٹٹگاٹر کے مطابق کوائف کے تحفظ کے ملکی ادارے کے ایک افسر نے اس سلسلے میں تحقیقات شروع کر دی ہے۔ اس ادارے کی ایک ترجمان نے بتایا کہ اگر اے ایف ڈی نے آن لائن فارم میں موجود تفصیلات کے علاوہ بھی صحافیوں سے نجی معلومات حاصل کرنی چاہیں تو یہ اس پارٹی کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو گا۔
جرمن صحافیوں تنظیم نے اے ایف ڈی کی جانب سے’’رضامندی یا اتفاق رائے کے اعلامیہ‘‘ کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس تنظیم کے ترجمان ہینڈرک زؤرنر نے کہا، ’’ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے یا پھر غیر دانستہ، یہ صحافیوں کے نجی معاملات میں ناقابل قبول مداخلت ہے۔‘‘
اے ایف ڈی کا پارٹی اجلاس دو دسمبر کو ہینوور شہر میں منعقد ہو گا۔
’جرمنی کی اسلام اور مہاجرین مخالف جماعت کا انتخابی منشور‘