جرمنی: اے ایف ڈی کی تعریف کرنے پر ایلون مسک پر نکتہ چینی
30 دسمبر 2024
ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے جرمن روزنامے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اے ایف ڈی کی تعریف کی تھی، جسے چانسلر کے اہم امیدوار فریڈرش میرس نے مسک کی 'مداخلت اور زعم باطل' قرار دیا۔
اشتہار
جرمنی کے ایک سینیئر سیاستدان اور سی ڈی یو کے رہنما نے ایلون مسک کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کی تعریف کرنے اور عوامی سطح پر اس کی حمایت کو ایک بے مثال مداخلت قرار دیتے ہوئے اسے "زعم باطل" پر مبنی بیان قرار دیا۔
جرمنی میں دائیں بازو کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی جانب سے چانسلر کے امیدوار فریڈرش میرس نے اتوار کے روز اے ایف ڈی سے متعلق ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک کے بیان پر سخت نکتہ چینی کی۔
ایک روز قبل ایلون مسک نے ایک جرمن ميڈیا ادارے کی میگزین میں شائع ہونے اپنے اداریے میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کو "اس ملک کے لیے امید کی آخری چنگاری" قرار دیا تھا۔
جرمن زبان میں شائع ہونے والے اس مضمون میں ایلون مسک نے ریگولیشن، ٹیکس اور مارکیٹ ڈی ریگولیشن جیسے امور پر اے ایف ڈی کی پالیسی کی تعریف کی تھی۔
ان کے اس مضمون پر شدید تنقید کی گئی اور مسک کا تبصرہ شائع کرنے والے اخبار ویلٹ ایم سونٹاگ کے ایک سینیئر ایڈیٹر نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
واضح رہے کہ مختلف پول جائزوں کے مطابق فی الوقت اے ایف ڈی فریڈرش میرس کی قدامت پسند جماعت سی ڈي یو کے اتحاد سے پیچھے اور دوسرے نمبر پر ہے۔
فریڈرش میرس نے کیا کہا؟
کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) پارٹی کے سربراہ فریڈرش میرس نے فنکے میڈيا گروپ سے بات چیت میں کہا، "مجھے نہیں یاد آر رہا ہے کہ مغربی جمہوریتوں کی تاریخ میں، ایک دوست ملک کی انتخابی مہم میں مداخلت کا کوئي ایسا کیس سامنے آیا ہو، جس کا موازنہ اس کیس سے کیا جا سکے۔"
ان کا مزید کہنا تھا: "ایک مختصر لمحے کے لیے تصور کیجیے کہ امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ایک بیرونی شخص کی حمایت کے لیے ایک ممتاز جرمن تاجر کی جانب سے اسی طرح کا موازنہ کرنے والا ایک مضمون نیویارک ٹائمز میں لکھا جائے، تو اس پر امریکیوں کی جانب سے ایک جائز ۔۔۔ ردعمل کیا ہو گا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹیسلا کی پہلی بڑی فیکٹری برلن کے مشرق میں تعمیر کی گئی تھی، اگر انتہائی دائیں بازو کی جماعت اقتدار میں ہوتی تو اسے منظور نہیں کیا جاتا، کیونکہ یہ "اے ایف ڈي ہی تھی، جس نے اس پلانٹ کے خلاف سب سے شدید مزاحمت کی تھی۔"
مسک کا اصرار اس بات پر ہے کہ چونکہ انہوں نے الیکٹرک کار ساز کمپنی میں سرمایہ کاری کی ہے، اس وجہ سے جرمن سیاست میں ان کی دلچسپی درست ہے۔
چانسلر اولاف شولس کی سوشل ڈیموکریٹس پارٹی (ایس پی ڈی) کی رہنما ساسکیہ ایسکن نے بھی ایلون مسک کے بیان کو جرمن انتخابات میں دنیا کے امیر ترین شخص کی مداخلت قرار دیا۔
ایسکن نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، "ایلون مسک کی دنیا کے لیے، جمہوریت اور کارکنوں کے حقوق ان کے زیادہ منافع کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہم بالکل واضح طور پر کہتے ہیں: ہماری جمہوریت قابل دفاع ہے اور اسے خریدا نہیں جا سکتا۔"
ایس پی ڈی کے ایک اور قانون ساز نے اس میڈيا ادارے پر سخت تنقید کی جس نے ایلون مسک کے مضمون کو شائع کیا اور کہا کہ یہ "شرمناک اور خطرناک" بات ہے۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، ای پی ڈی، روئٹرز)
جرمن انتخابات 2025ء: چانسلرشپ کا امیدوار کون کون؟
جرمنی میں تیئیس فرورری کے عام انتخابات سے قبل تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں نے سربراہ حکومت کے عہدے یعنی چانسلرشپ کے لیے اپنے امیدواروں کے نام فائنل کر لیے ہیں۔ آئیے ان سیاستدانوں کے پروفائلز کا جائزہ لیں۔
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
اولاف شولس ، ایس پی ڈی (پیدائش: انیس سو اٹھاون)
سوشل ڈیموکریٹ شولس کے پاس کبھی بھی خود اعتمادی کی کمی نہیں رہی، وہ خود کو ایک مؤثر اور باشعور عملیت پسند رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی لاء فرم چلائی، اور پھر عشروں پر محیط اپنے سیاسی کیریئر میں ہیمبرگ میں حکومتی عہدوں سمیت وفاقی سطح پر وزیر محنت، وزیر خزانہ اور وفاقی جرمن چانسلر کے اہم ترین عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ لیکن اب انہیں رائے عامہ کے جائزوں میں کم عوامی مقبولیت حاصل ہے۔
تصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
فریڈرش میرس، سی ڈی یو (پیدائش: انیس سو پچپن)
قدامت پسند میرس گزشتہ نصف صدی میں جرمنی میں چانسلرشپ کے لیے سب سے عمر رسیدہ امیدوار ہیں۔ مغربی جرمنی کے دیہی زاؤرلینڈ سے تعلق رکھنے والے کٹر کیتھولک اور کاروباری امور کے وکیل میرس کے پاس کبھی کوئی عوامی عہدہ نہیں رہا۔ ان کا نجی کمپنیوں میں ملازمت کا ایک طویل کیریئر ہے، جس میں اثاثہ جات کے انتظامات کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشن، بلیک راک میں ایک عہدے پر فرائض کی انجام دہی بھی شامل ہے۔
تصویر: Ruffer/Caro/picture alliance
رابرٹ ہابیک، گرینز (پیدائش: انیس سو انہتر)
ہابیک اپنے مخصوص ہیئر اسٹائل اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ عوامی شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔ اس عملیت پسند سیاست دان کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ یہ ہابیک ہی تھے، جنہوں نے عوام کے سامنے حکومتی سیاسی فیصلوں کی وضاحت کرنے اور اپنے حکومتی شراکت داروں کے تکبر زدہ تشخص کو ختم کرنے کے لیے سادہ اور دلکش الفاظ تلاش کیے تھے۔ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے قبل وہ ایک مصنف، مترجم اور فلسفی رہے ہیں۔
تصویر: appeler/dpa/picture alliance
ایلیس وائیڈل، اے ایف ڈی (پیدائش انیس سو اناسی)
جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی ) کی شریک چیئر پرسن وائیڈل نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، چین میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی اور یورو اور نیٹو کے بارے میں شکوک و شبہات سے کام لیتی ہیں۔ وائیڈل اشتعال انگیزی اور خاص طور پر تارکین وطن کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کے لیے مشہور ہیں۔
سابق وزیر خزانہ لنڈنر نے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی، اپنے چھوٹے سے تشہیری کاروبارکی بنیاد رکھی اور وہ جرمن فضائیہ میں ایک ریزرو افسر بھی ہیں۔ وہ صرف 34 سال کی عمر میں اپنی نیو لبرل فری ڈیموکریٹ پارٹی کے چیئرمین بنے اور ابھی تک اس کے بلامقابلہ رہنما ہیں۔ ان کی شہرت سوشل میڈیا کے ماہر اور اسٹائلش انسان کے طور پر ہے اور وہ اسپورٹس کاروں سے اپنی محبت کے لیے جانے جاتے ہیں۔
تصویر: Hannes P Albert/dpa/picture alliance
سارہ واگن کنیشت، بی ایس ڈبلیو (پیدائش: انیس سو انہتر)
واگن کنیشت لیفٹ پارٹی کی ایک سابقہ سرکردہ شخصیت ہیں۔ وہ اکثر ٹاک شوز میں بطور مہمان شرکت کرتی ہیں اور عوامیت پسندانہ بیان بازی کی ماہر ہیں۔ وہ دوسرے سیاست دانوں کو احمق اور منافق قرار دیتی ہیں۔ وہ قدامت پسند سماجی اور بائیں بازو کی معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن مخالف پوزیشنوں کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ اپنی جماعت ’الائنس سارہ واگن کنیشت‘ پر مکمل غلبہ رکھتی ہیں۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ژان فان آکن، لیفٹ پارٹی (پیدائش: انیس سو اکسٹھ)
فان آکن مغربی جرمنی میں پیدا ہوئے، انہوں نے حیاتیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور 2004ء سے 2006ء تک اقوام متحدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کے انسپکٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ وہ 2009 ء سے 2017 ء تک جرمن پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں لیفٹ پارٹی کے قانون ساز بھی رہ چکے ہیں۔ وہ بائیں بازو کی اس جماعت کے شریک چیئرمین بھی رہے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔