جرمنی: باویریا سے مہاجرین کی ملک بدری اب چارٹرڈ پروازوں سے
5 جون 2018
جرمن صوبے باویریا کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری کے لیے برلن پر انحصار کرنے کی بجائے صوبائی سطح پر ہی خصوصی چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے تارکین وطن کو ملک بدر کرے گی۔
اشتہار
وفاقی جرمن ریاست میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند اتحادی جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) برسر اقتدار ہے۔ صوبائی سطح پر ملک بدری کی خصوصی پروازیں چلانے کا اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب کہ رواں برس موسم خزاں میں صوبائی انتخابات ہونا ہیں۔
باویریا کے وزیر اعلیٰ مارکوُس زوئڈر کا کہنا تھا کہ خصوصی پروازوں کا منصوبہ ان متعدد اقدامات کا صرف ایک حصہ ہے جن کی مدد سے اس برس اگست سے پہلے پہلے ریاست سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں کا عمل تیز کیا جانا ہے۔
آج پانچ جون بروز منگل صوبائی دارالحکومت میونخ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے زوئڈر نے یہ بھی بتایا کہ صوبے میں پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے لیے سات ایسے بڑے مراکز بھی تیار کیے جا رہے ہیں جہاں تارکین وطن کو ان کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ کیے جانے تک قیام کرنا ہو گا۔
جرمنی آنے والے تارکین وطن زیادہ تر ملک کے جنوب میں واقع اسی صوبے میں آسٹریا سے سرحد عبور کر کے جرمنی پہنچتے ہیں۔ سن 2015 کے بعد سے ایک ملین سے زائد مہاجرین وفاقی ریاست باویریا ہی کے ذریعے جرمنی پہنچی تھی۔
اس صوبے میں انتخابات چودہ اکتوبر کو منعقد ہوں گے۔ گزشتہ عام انتخابات میں چانسلر میرکل کی اس قدامت پسند اتحادی جماعت کے حامیوں میں سے کئی نے سی ایس یو کی بجائے دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی کو ووٹ دیے تھے۔ اپنے ناراض کارکنوں کو دوبارہ اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سی ایس یو نے مہاجرین سے متعلق اپنا رویہ سخت کر رکھا ہے۔
سی ایس یو کے سربراہ اور باویریا کے سابق وزیر اعلیٰ ہورسٹ زیہوفر اب ملکی وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز ہیں۔ زیہوفر نے بھی ملکی سطح پر مہاجرین کے خلاف کئی سخت اقدامات کا اعلان کر رکھا ہے۔
ش ح/ ا ا (اے پی)
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔