افغان حکام کا کہنا ہے کہ جرمنی سے ڈی پورٹ کیے جانے والے سترہ افغان مہاجرین کا ایک گروپ آج کابل پہنچا ہے۔ اس شورش زدہ ملک میں جاری جنگ کے باعث تارکین وطن کی واپسی کی پالیسی ایک متنازعہ معاملہ بنی ہوئی ہے۔
اشتہار
افغان وزارت مہاجرین کے ترجمان حافظ میاخیل کے مطابق جرمنی بدر کیے گئے مہاجرین کا جہاز آج صبح ساڑھے سات بجے کابل ایئر پورٹ پہنچا۔ دسمبر سن 2016 سے جرمنی سے افغانستان ڈی پورٹ کیے جانے والے تارکین وطن کا یہ سولہواں گروپ ہے۔
آج افغانستان پہنچنے والے مہاجرین سمیت اب تک جرمنی سے تین سو چھیاسٹھ ایسے افراد کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔
قندوز صوبے سے تعلق رکھنے والے تئیس سالہ نوجوان بصیر الم زادہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے جرمنی واپس جانے کی امید ترک نہیں کی کیونکہ اُن کے بچے اور بیوی وہاں رہ رہے ہیں۔ الم زادہ ملک بدر کیے جانے سے پہلے آٹھ سال تک جرمنی میں مقیم رہا تھا۔
جرمنی سے پناہ گزینوں کو واپس بھیجے جانے کے معاملے پر اس عمل کے مخالفین سخت تنقید کرتے ہیں کیونکہ اُن کی رائے میں افغانستان جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ اور طالبان کی جانب سے مسلسل کیے جانے والے حملوں کی زد میں ہے اور اس حوالے سے اب بھی ایک خطرناک ملک ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ کچھ عرصے میں افغان مہاجرین اور مہاجرین کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جرمنی میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ ان مظاہرین کا موقف ہے کہ افغانستان محفوظ علاقہ نہیں ہے لہذا وہاں مہاجرین کو واپس بھیجنا درست فیصلہ نہیں۔
رواں ہفتے ہی ننگر ہار صوبے میں ایک خود کش بم حملے میں کم سے کم اڑسٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ص ح / ا ا / نیوز ایجنسی
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔