’جرمنی بدل چکا ہے‘: ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
2 ستمبر 2016جرمنی میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ پہلے یہ بُری خبر کہ جرمنی میں نسل پرستی بڑھ گئی ہے۔ دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت AFD (آلٹرنیٹیو فار جرمنی)، جو مہاجرین کی آمد سے پہلے اپنی مقبولیت کھو رہی تھی، اب بہت سے جرمن شہریوں میں مہاجرین کے حوالے سے موجود خوف سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔
اب AFD کو رائے عامہ کے جائزوں میں پندرہ فیصد ملک گیر عوامی حمایت حاصل ہے جبکہ گزشتہ انتخابات میں یہ جماعت پانچ فیصد کی مطلوبہ حد کو بھی پار نہ کر سکی تھی اور یوں پارلیمان میں پہنچنے سے قاصر رہی تھی۔
دیکھا جائےتو باقی یورپ کے مقابلے میں جرمنی کی حالت پھر بھی قدرے مستحکم ہے۔ فرانس اور بلغاریہ میں دائیں بازو کی عوامیت پسند قوتیں بیس فیصد سے زیادہ عوامی حمایت کے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھی ہیں جبکہ ہنگری اور پولینڈ میں تو حکومت ہی اُنہی کی ہے۔ برطانیہ کی یُو کے انڈیپنڈینس پارٹی (UKIP) برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج سے متعلق ریفرنڈم میں اہم کردار ادا کر چکی ہے۔
جرمنی میں لوگ حکومت کی مہاجرین سے متعلق پالیسیوں سے غیر مطمئن ہیں لیکن گو چانسلر انگیلا میرکل کی اپنی مقبولیت کم ہوئی ہے، یونین جماعتوں کی پوزیشن بہرحال مستحکم ہے۔ میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسیوں سے یورپی ہمسائے خوش نہیں لیکن امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ساتھ افریقہ اور مشرقِ وُسطیٰ کے بھی بہت سے انسان میرکل کی پالیسیوں کو سراہ رہے ہیں۔
ابتدا میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنے والے جرمن شہریوں کا رویہ بھی سالِ نو کے موقع پر کولون میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور پھر جرمن سرزمین پر پَے در پَے دہشت گردانہ حملوں کے بعد تبدیل ہوچکا ہے۔
مہاجرین کے ساتھ بلا شبہ بہت سے انتہا پسند بھی جرمنی میں داخل ہو گئے لیکن اگر جرمنی اپنی سرحدیں بند رکھتا تو لاکھوں ضرورت مند مہاجرین کی مدد نہ ہو پاتی۔ جرمن معاشرے میں مہاجرین کی جانب تمام تر منفی رجحانات کے باوجود بہت سے جرمن شہری مہاجرین کی حتی المقدور مدد بھی کر رہے ہیں۔
اصل بڑا مسئلہ ان مہاجرین کے انضمام کا ہے، جس کے لیے پیسہ بھی چاہیے۔ مہاجرین کو جرمن سیکھنی چاہیے اور ہماری مغربی جمہوری قدروں کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے۔ جو ایسا نہ کرے، اُس کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے۔
یہ بحران جرمنوں کے لیے چیلنجز کے ساتھ ساتھ بہت سے مواقع بھی لیےہوئے ہے۔ مصیبت کے مارے انسانوں کی مدد ہمارے معاشرے کو مزید مضبوط کرے گی اور ایک روز ہم فخر کے ساتھ یہ کہہ سکیں گے کہ اچھا ہوا، جرمنی بدل گیا۔