1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی بین الاقوامی سطح پر مزید ذمہ داریاں اٹھائے، بان کی مون

عاطف توقیر31 جنوری 2014

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے جرمنی سے کہا ہے کہ وہ عالمی سطح پر مزید ’قائدانہ‘ کردار ادا کرے۔ ادھر جرمن چانسلر میرکل کا کہنا ہے کہ برلن حکومتی جنگی محاذوں پر اپنے فوجی نہیں بھیجے گی۔

تصویر: Reuters

اپنے چار روزہ دورہ جرمنی کے پہلے روز بان کی مون نے برلن میں چانسلر میرکل سے ملاقات کی۔ وہ رواں اختتام ہفتہ پر میونخ میں سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کریں گے، جہاں وہ روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف اور امریکی وزیرخارجہ جان کیری سے بھی ملیں گے۔

برلن میں چانسلر میرکل کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں بان کی مون نے زور دیا کہ وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلم اور مسیحیوں کے درمیان جاری خونریزی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشن کو مزید فوجی دستے درکار ہیں، تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آیا اس سلسلے میں جرمنی ممکنہ طور پر اپنے فوجی بھیجنے پر آمادہ ہے یا نہیں۔

تاہم میرکل نے کہا کہ جرمنی اس معاملے میں بہت واضح پوزیشن رکھتا ہے کہ وہ جنگی کارروائیوں کے لیے فوجی کہیں نہیں بھیجے گا۔

بان کی مون نے جرمنی پر زور دیا کہ وہ عالمی سطح پر مزید ذمہ داریاں اٹھائےتصویر: Reuters

بان کی مون نے کہا، ’جرمنی کو جو زبردست اور صحت مند معیشت کا حامل ہے، ایک معاشی طاقت ہے، بین الاقوامی سطح پر قائدانہ سیاسی کردار ادا کرنا چاہیے۔ میں اسی لیے یہاں آیا ہوں۔‘

انہوں نے چانسلر میرکل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’میں نے اسی لیے ان سے کہا ہے کہ وہ شام، وسطی افریقہ اور دیگر جگہوں پر قائدانہ کردار ادا کریں۔ ہمیں ان مسائل سے نمٹنا ہو گا تاکہ ہم ایک بہتر دنیا قائم کر سکیں۔‘

جرمن چانسلر نے اس موقع پر کہا کہ فوجیوں کی بجائے جرمنی مشوروں اور امداد دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، ’فوجی عزم کے کم یا زیادہ ہونے کی بات نہیں ہے۔ بڑے ممالک جیسے جرمنی دیگر متعدد طریقوں سے کام کر سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’آپ کو سیاسی حل بھی درکار ہوتا ہے۔ ترقی کا عنصر بھی ضروری ہوتا ہے، حکومتی ڈھانچے کی تعمیر بھی اہم ہوتی ہے اور کچھ مواقع پر فوجی عنصر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جرمنی کیس کی نوعیت کے اعتبار سے فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں کس شے کی زیادہ ضرورت ہے۔‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں