جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں موجود بے روزگار تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان، ایران، عراق اور شام جیسے ممالک سے ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ سروے آئی اے بی نامی ادارے نے وفاقی دفتر روزگار کے لیے کیا تھا۔ اس حالیہ جائزے کے مطابق گزشتہ برس گیارہ لاکھ سے زائد نئے پناہ گزینوں کی جرمنی آمد کے بعد ملک میں بے روزگار تارکین وطن کی تعداد میں ساٹھ فیصد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔
وفاقی دفتر روزگار کے مطابق بے روزگار پناہ گزینوں کی اکثریت کا تعلق اریٹریا، عراق، ایران، نائجیریا، پاکستان، صومالیہ اور شام سے ہے۔ جائزے کے مطابق فروری کے مہینے میں بے روزگار مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار سے زائد تھی جب کہ گزشتہ برس اسی مہینے کے دوران یہ تعداد 65 ہزار تھی۔
آئی اے بی کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے، ’’مہاجرین کو جرمنی کی روزگار کی منڈی تک پہنچانے میں وقت لگے گا۔‘‘ تارکین وطن کو روزگار کی فراہمی میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں ان میں پیچیدہ دفتری طریقہ کار کے علاوہ جرمن زبان سے ناواقفیت اور نوکریوں کے لیے درکار قابلیت نہ ہونے جیسی وجوہات بتائی گئی ہیں۔
جرمنی: مہاجرین کی پیشہ ورانہ تربیت شروع
02:59
علاوہ ازیں مذکورہ سروے میں تارکین وطن کو جرمنی میں کام کرنے کی اجازت دیے جانے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ جائزے کے مطابق گزشتہ برس کے دوران ساڑھے اکیس ہزار سے زائد پناہ گزینوں کو جرمنی میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔
اس کے مقابلے میں 2014ء کے دوران محض آٹھ ہزار تارکین وطن کو ہی کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام، افغانستان، عراق اور پاکستان سے ہے۔
کام کرنے کی اجازت ملنے کے باوجود تارکین وطن کے لیے ملازمت کا حصول دشوار ہوتا ہے۔ جرمن وفاقی دفتر روزگار کے مطابق مہاجرین کو کام اسی صورت میں ملتا ہے جب اس نوکری کے لیے کوئی جرمن یا یورپی یونین کا شہری دستیاب نہ ہو۔
وفاقی دفتر روزگار نے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کے تناظر میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ رواں برس کے دوران بے روزگار تارکین وطن کی سالانہ اوسط تعداد ایک لاکھ تیس ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔
دوسری جانب جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کا بھی کہنا ہے کہ رواں برس کے دوران دو لاکھ 45 ہزار سے لے کر چار لاکھ 65 ہزار تارکین وطن ایسے ہوں گے جو جرمن حکومت سے بے روزگاری الاؤنس حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دے سکتے ہیں۔
بے روزگار مہاجرین کے اعداد و شمار میں صرف ان غیر ملکیوں کو شامل کیا گیا ہے جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘