جرمنی: بے گھروں کے لیے نہانے کا اہتمام اب ایک بس میں
7 دسمبر 2019
بے گھر افراد کھلے آسمان تلے سو تو جاتے ہیں لیکن یورپی ممالک کی سردی میں ان کے لیے غسل کا کوئی بندوبست موجود نہیں ہوتا۔ جرمن شہر ہیمبرگ میں بے گھروں کے لیے ایک شخص نے تین غسل خانوں والی ایک خصوصی بس تیار کی ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن ریاست اور بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور بے گھر افراد آج سے ایک بس میں نہا بھی سکیں گے اور اسی بس میں ان کے لیے صاف کپڑوں کا بندوبست بھی موجود ہو گا۔ اس بس کو 'شاور بس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
بے گھروں کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ اس بس کی شروعات ڈومینیک بلواہ نامی ایک ایسے شخص نے کی ہے جو طویل مدت تک خود بھی بے گھر تھا اور سڑک پر زندگی گزارنے پر مجبور رہا تھا۔
ڈومینیک کا کہنا تھا کہ بے گھری کی زندگی کے دوران وہ بہت طویل وقت کے لیے غسل نہیں لے پاتا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے 'گوبانیو پراجیکٹ‘ شروع کیا اور 'شاور بس‘ کے لیے کراؤڈ فنڈنگ شروع کی اور اس منصوبے کے لیے ایک لاکھ 68 ہزار یورو جمع کر لیے۔
بس سے متعارف کراتے ہوئے ڈومینیک کا کہنا تھا، ''بس میں بہت جگہ ہے جہاں آپ خود کو پرسکون محسوس کر سکتے ہیں اور باعزت طریقے سے نہا سکتے ہیں۔‘‘
درکار رقم جمع کر لینے کے بعد ڈومینیک نے مقامی پبلک ٹرانسپورٹ کمپنی کی ایک متروک بس حاصل کی اور کئی ماہ بعد اسے 'شاور بس‘ کے طور پر تیار کر لیا۔ اس بس میں تین غسل خانے بنائے گئے ہیں، جن کے بارے میں ڈومینیک نے فخریہ انداز میں بتایا کہ غسل خانوں کو کنڈی بھی لگائی جا سکتی ہے۔
علاوہ ازیں بس کے اندر بے گھروں کے لیے صاف کپڑوں کا بندوبست بھی موجود ہے۔
ہیمبرگ کے حکام کے مطابق شہر میں دو ہزار سے زیادہ بے گھر افراد ہیں تاہم سماجی تنظیم گوبانیو کے مطابق حقیقی تعداد اس سے بھی کہیں زیاد ہے۔
کچھ عرصہ قبل جرمن دارالحکومت برلن میں بھی 'شاور بس سروس‘ شروع کی گئی تھی، تاہم برلن میں یہ سروس صرف بے گھر خواتین کے لیے مخصوص ہے۔
ش ح / ع ح (ڈی پی اے، کے این اے)
جرمن شہریوں کی غربت کی کہانیاں
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔