ترک وطن کا پس منظر رکھنے والے جرمن شہریوں سے اکثر ان کی وراثت کے بارے میں سوال کیے جاتے ہیں۔ کیا ان سوالات کی وجہ اشتیاق یا تجسس ہوتا ہے یا پھر نسلی تعصب؟ اس تناظر میں شناخت کے موضوع پر ملک بھر میں بحث شروع ہو گئی ہے۔
اشتہار
طاہر دیلا سے جب لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ اس کا کہاں سے تعلق ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ میونخ سے۔ طاہر1962ء میں جرمنی کے اسی شہر میں پیدا ہوا تھا۔ اس شہر اور صوبے کا اس کی شخصیت پر گہرا اثر ہے۔ تاہم گزشتہ دو برسوں سے وہ برلن میں مقیم ہے۔
اکثر لوگ طاہر دیلا کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوتے۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ اصل میں اس کا تعلق کہاں سے ہے؟ اس کے والدین یا آباؤ اجداد کہاں سے ہیں؟
دیلا کے مطابق، ’’جب میں کسی سے ملتا ہوں یا کوئی مجھ سے پہلی مرتبہ ملتا ہے تو ابتدائی طور پر یہی سوال اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے۔ سفید فام جرمن جب خود ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایسا کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا۔ ممکن ہے کچھ وقت کے بعد پوچھا جاتا ہے۔‘‘
سیاہ فام اور جرمن
طاہر ڈیلا کے بقول اس طرح کے سوالات پریشان کن ہوتے ہیں۔ وہ انہیں نسل پرستی کی ہی ایک قسم قرار دیتے ہیں، ’’ہو سکتا ہو کہ لوگ دلچسپی یا تجسس کی وجہ سے مجھ سے پوچھتے ہوں اور وہ مجھے پریشان نہ کرنا چاہتے ہوں لیکن مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔‘‘
تیس سال قبل طاہر دیلا ’جرمنی میں سیاہ فام شہری‘ کے نام سے شروع کی گئی ایک مہم کا حصہ تھے۔ دیلا کے نہ تو سنہری بال ہیں، نہ ہی وہ سفید فام ہیں اور وہ بار بار اپنے پس منظر کے بارے میں پوچھے جانے سے تنگ آ چکے ہیں۔
وراثت پر بحث
اس موضوع پر بات چیت حال ہی میں اس وقت شروع ہوئی، جب صوبہ باویریا کے ایک صحافی میلکم اوہانوے نے ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا، جس میں جرمن گلوکار ڈیٹر بوہلن ایک کاسٹنگ شو میں ایک پانچ سالہ بچی سے اس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ اس بچی نے کہا کہ وہ جرمن شہر ہیرنے سے آئی ہے۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
پھر بوہلن نے زور دے کر پوچھا، ’’تمہارے والدین کا تعلق کہاں سے ہے، فلپائن سے؟ جس پر بچی نے کہا کہ نہیں وہ بھی ہیرنے سے ہیں۔ پھر بچی سے سوال کیا گیا، ’’تمہارے والدین کہاں پیدا ہوئے تھے؟ تمہارے آباؤ اجداد کا تعلق کہاں سے ہے؟ اس پر بچی کی والدہ اسٹیج پر آئیں اور کہا کہ ان کا تعلق تھائی لینڈ سے ہے۔
ڈیلا نے کہا کہ ڈیٹر بوہلن کے سوال و جواب سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ ’’لوگ تو پانچ سالہ بچی سے بھی اس کے پس منظر جاننے کے لیے تفتیش کرتے ہیں کیونکہ اس موسیقار سے یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ بچی جرمن ہے۔‘‘