جرمنی میں تارکین وطن کے سماجی انضمام کے کورسز، اکثریت مطمئن
18 ستمبر 2019
جرمنی میں مہاجرین کے لیے اہتمام کردہ سماجی انضمام کے کورسز سے ان تارکین وطن کی تقریباﹰ دو تہائی اکثریت قطعی مطمئن ہے۔ ان کورسز کے ساٹھ فیصد سے زائد شرکاء نے اپنی جرمن زبان بولنے کی اہلیت سے متعلق اطمینان کا اظہار کیا۔
اشتہار
تاہم انہی تربیتی کورسز کے بارے میں ماہرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ انہیں ہر مہاجر اور تارک وطن کے لیے سود مند بنانے کی خاطر مزید بہتری کی ضرورت ہے، خاص طور پر اس لیے کہ ایسے تربیتی پروگراموں میں خواتین تارکین وطن اکثر پیچھے رہ جاتی ہیں، جس کی اپنی وجوہات ہیں۔
جرمنی میں مہاجرت اور تارکین وطن سے متعلقہ امور کے وفاقی دفتر (BAMF) کے ایک تازہ مطالعاتی جائزے کے مطابق ملک میں لاکھوں تارکین وطن کے لیے سماجی انضمام کے تربیتی پروگرام مجموعی طور پر بہت کامیاب اور سود مند ثابت ہو رہے ہیں۔
ایسے ٹریننگ کورسز کے 61 فیصد شرکاء نے تصدیق کی کہ یوں ان کی جرمن زبان بولنے کی اہلیت بہت بہتر ہو گئی۔
اس کے برعکس وہ تارکین وطن جنہوں نے ایسے سماجی تربیتی کورسز میں حصہ نہیں لیا تھا، ان میں سے صرف 17 فیصد ایسے تھے، جو یہ کہہ سکتے تھے کہ انہیں جرمن زبان پر اتنی دسترس حاصل ہے کہ وہ ان کے لیے سماجی طور پر کافی ثابت ہو سکتی ہے۔
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے؟
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے بارہ فیصد افراد غیر ملکی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر تک ملک میں چالیس لاکھ اٹھاون ہزار غیر ملکی شہری برسر روزگار تھے۔ ان ممالک پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں:
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
1۔ ترکی
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
2۔ پولینڈ
یورپی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 33 ہزار افراد گزشتہ برس نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
3۔ رومانیہ
رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 66 ہزار افراد جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
4۔ اٹلی
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے بھی 2 لاکھ 68 ہزار شہری جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
5۔ کروشیا
یورپی ملک کروشیا کے قریب 1 لاکھ 87 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Gerten
6۔ یونان
یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے قریب 1 لاکھ 49 ہزار باشندے جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
7۔ بلغاریہ
جرمنی میں ملازمت کرنے والے بلغاریہ کے شہریوں کی تعداد بھی 1 لاکھ 34 ہزار کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
8۔ شام
شامی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ برسوں کے دوران بطور مہاجر جرمنی پہنچی تھی۔ ان میں سے قریب 1 لاکھ 7 ہزار شامی باشندے اب روزگار کی جرمن منڈی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kögel
9۔ ہنگری
مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والے ملک ہنگری کے 1 لاکھ 6 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کام کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد 84 ہزار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
17۔ افغانستان
شامی مہاجرین کے بعد پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں میں افغان شہری سب سے نمایاں ہیں۔ جرمنی میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-U. Koch
19۔ بھارت
بھارتی شہری اس اعتبار سے انیسویں نمبر پر ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتیوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: Bundesverband Deutsche Startups e.V.
27۔ پاکستان
نومبر 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار پاکستانی شہریوں کی تعداد 22435 بنتی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں میں قریب دو ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
13 تصاویر1 | 13
اس بارے میں 'بامف‘ نامی وفاقی جرمن دفتر کے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ان حوصلہ افزا نتائج کے باوجود جرمنی میں پناہ کی تلاش میں آنے والے غیر ملکیوں کے سماجی انضمام کا سارا منظر نامہ ہی بہت امید افزا نہیں ہے۔ یعنی وہ تارکین وطن، جن کا تعلق دنیا کے مختلف بحران زدہ خطوں اور ممالک سے ہوتا ہے اور جو پناہ کی تلاش میں جرمنی آتے ہیں، ان کی ایسے سماجی تربیتی پروگراموں میں کامیاب شرکت ان غیر ملکیوں کے مقابلے میں کافی مشکل ثابت ہوتی ہے، جس کا تعلق یورپی یونین ہی کے مختلف ممالک سے ہوتا ہے اور جو جرمنی میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
خواتین کی شرکت کا تناسب کم تر
ساتھ ہی اس اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے سماجی انضمامی تربیتی پروگراموں میں تعلیم دینے والے افراد کو خصوصاﹰ پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں اور تارکین وطن کو جرمن زبان اور سماجی اقدار کی تعلیم دینے میں کافی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بڑے اسباب میں ایسے مہاجرین کا عموماﹰ غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ ہونا، آبائی ممالک میں بحرانی حالات کے باعث انہیں درپیش نفسیاتی مسائل اور ایسے کورسز میں خواتین مہاجرین کی کم تر شرکت کا رجحان بھی شامل ہیں۔
اس صورت حال کے اسباب کی چھان بین کرتے ہوئے 'بامف‘ کی محققہ آنا ٹِسوٹ اس نتیجے پر پہنچیں کہ پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والی خواتین اکثر اپنے ساتھ آنے والے مردوں کے مقابلے میں تعلیمی لحاظ سے بہت پسماندہ ہوتی ہیں، وہ اکثر کسی بھی پیشے میں باقاعدہ تربیت یافتہ بھی نہیں ہوتیں اور بہت سے واقعات میں وہ ایسے ٹریننگ پروگراموں میں اس لیے حصہ نہیں لے سکتیں کہ انہیں اپنے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے۔
سالانہ لاگت تقریباﹰ ڈھائی ارب یورو
جرمن ریاست ملک میں تارکین وطن کے سماجی انضمام پر کتنے وسائل خرچ کر رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2016ء میں ایسے کورسز میں تارکین وطن کو پڑھانے والے اساتذہ کا فی گھنٹہ اعزازیہ بھی بڑھا دیا گیا تھا۔ اس وقت ایسے اساتذہ میں سے 80 فیصد خواتین ہیں۔
تین سال قبل ان کی ماہانہ اجرت 23 یورو سے بڑھا کر 35 یورو کر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ جو اساتذہ ناخواندہ تارکین وطن کو تعلیم دیتے ہیں، انہیں ان کے فرائض کے مقابلتاﹰ زیادہ مشکل ہونے کی وجہ سے 40 یورو فی گھنٹہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں: فیصلے کن کے حق میں؟
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمن حکام نے پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے سنائے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس ملک کے کتنے پناہ گزینوں کی اپیلیں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
1۔ افغان مہاجرین
رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1647 افغان مہاجرین کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے بطور مہاجر تسلیم، ثانوی تحفظ کی فراہمی یا ملک بدری پر پابندی کے درجوں میں فیصلے کرتے ہوئے مجموعی طور پر 440 افغان شہریوں کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی۔ یوں افغان تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح قریب ستائیس فیصد رہی۔
تصویر: DW/M. Hassani
2۔ عراقی مہاجرین
بی اے ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گیارہ سو عراقی مہاجرین کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے اور ایک سو چودہ عراقیوں کو مختلف درجوں کے تحت جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں عراقی مہاجرین کی کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld
3۔ روسی تارکین وطن
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلیں بھی نمٹائی گئیں اور کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ کم رہی۔ صرف تیس روسی شہریوں کو مہاجر تسلیم کیا گیا جب کہ مجموعی طور پر ایک سو چار روسی شہریوں کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
4۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں شامی مہاجرین کی اکثریت کو عموما ابتدائی فیصلوں ہی میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بی اے ایم ایف کے حکام نے پناہ کے مسترد شامی درخواست گزاروں کی قریب ایک ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے جن میں سے قریب پیتنالیس فیصد منظور کر لی گئیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannokouris
5۔ سربیا کے تارکین وطن
مشرقی یورپی ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے 933 تارکین وطن کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف پانچ منظور کی گئیں۔ یوں کامیاب اپیلوں کی شرح 0.5 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
6۔ پاکستانی تارکین وطن
اسی عرصے کے دوران جرمن حکام نے 721 پاکستانی تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے۔ ان میں سے چودہ منظور کی گئیں اور اپیلوں کی کامیابی کی شرح قریب دو فیصد رہی۔ آٹھ پاکستانیوں کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ تین کو ’ثانوی تحفظ‘ فراہم کرتے ہوئے جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: DW/I. Aftab
7۔ مقدونیہ کے تارکین وطن
مشرقی یورپ ہی کے ملک مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے 665 تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے سنائے گئے جن میں سے صرف 9 منظور کی گئیں۔
تصویر: DW/E. Milosevska
8۔ نائجرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چھ سو تارکین وطن کی اپیلیں نمٹائی گئیں جن میں کامیاب درخواستوں کی شرح تیرہ فیصد رہی۔
تصویر: A.T. Schaefer
9۔ البانیا کے تارکین وطن
ایک اور یورپی ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے 579 تارکین وطن کی ثانوی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف نو افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
10۔ ایرانی تارکین وطن
جنوری سے جون کے اواخر تک 504 ایرانی شہریوں کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے گئے جن میں سے 52 کو بطور مہاجر تسلیم کیا گیا، چار ایرانی شہریوں کو ثانوی تحفظ دیا گیا جب کہ انیس کی ملک بدری پر پابندی عائد کرتے ہوئے جرمنی رہنے کی اجازت دی گئی۔ یوں ایرانی تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح پندرہ فیصد سے زائد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
10 تصاویر1 | 10
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن اور مہاجرین کی سماجی تربیت کرنے والے ایسے اساتذہ میں سے 76 فیصد جرمن شہری ہیں اور باقی 24 فیصد جرمنی میں مستقل رہائش پذیر غیر ملکی۔
جرمنی میں تارکین وطن کے سماجی انضمام کے ایسے پروگراموں کے نتائج پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے کافی تنقید بھی کی ہے۔ بائیں باز وکی سیاسی جماعت 'دی لِنکے‘ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ایسے تربیتی پروگراموں کی مجموعی حالت اطمینان بخش نہیں ہے۔
اسی طرح ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کی طرف سے کہا گہا ہے کہ 'بامف‘ کے تازہ ترین ملکی جائزے کے نتائج غیر تسلی بخش تو ہیں لیکن حیران کن نہیں، حالانکہ ایسے پروگراموں پر جرمن حکومت جو رقوم خرچ کر رہی ہے، ان کی مالیت انتہائی زیادہ ہے۔ 'بامف‘ کے مطابق حکومت مہاجرین اور تارکین وطن کے سماجی انضمام پر سالانہ 2.4 ارب یورو خرچ کر رہی ہے۔
م م / ع ح (ڈی پی اے، اے ایف پی، کے این اے)
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔