جرمنی تارکین وطن کے لیے امیگریشن قوانین نرم کرے گا
صائمہ حیدر الزبتھ شو ماخر
20 نومبر 2018
جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق جرمن مخلوط حکومت میں شامل اتحادی سیاسی جماعتیں بیرون ممالک سے پیشہ وارانہ صلاحیت کے حامل افراد کی امیگریشن کے قوانین کو نرم کرنے پر رضامند ہو گئی ہیں۔
اشتہار
جرمن وزارت داخلہ، افرادی قوت، اور اقتصادی اُمور تینوں ہی نے افرادی قوت کی امیگریشن کے لیے نئے مجوزہ قوانین پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ اس معاملے پر رواں ماہ اکتوبر میں مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے درمیان ایک سمجھوتہ طے پایا تھا۔ اس سے قبل اس مسئلے پر ان سیاسی جماعتوں میں طویل عرصے سے اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔
جرمن اخبار ’ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نئے قانون کے مطابق کسی بھی ملازمت پر کسی غیر ملکی کو رکھنے سے قبل ملازمت دہندہ کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے یا جرمن شہری اس پوزیشن پر کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اس قانون کے تحت ایسی پوزیشنوں پر بھی غیر ملکی ماہر افراد کو ترجیح دی جائے گی جن میں خالی جگہوں کی تعداد اُن کے لیے دی گئی درخواستوں سے زیادہ ہے۔ ان میں نرسنگ اور معمر افراد کی دیکھ بھال کے شعبے شامل ہیں۔
نئے لیبر قوانین کے تحت ایسے ماہر پیشہ ور افراد کو جرمنی میں ملازمت کی تلاش کے لیے وقت دینے کے معیارات کو بھی متعارف کرایا جائے گا جنہوں نے جرمنی ہی میں ووکیشنل تربیت مکمل کی ہو۔
کن ملکوں کے شہری ملازمت کا ویزہ حاصل نہیں کر سکیں گے؟
تاہم جرمن اخبار ’ہانڈلز بلٹ‘ کے مطابق چند ممالک ایسے ہو سکتے ہیں جن کے شہریوں کو ملازمت کا ویزہ نہ دیا جائے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ برلن حکومت کی جانب سے ایسے ممالک کی کوئی فہرست تو نہیں جاری کی لیکن ان میں ممکنہ طور پر جرمنی میں پہلے سے موجود پناہ گزینوں کے ممالک کے نام شامل ہو سکتے ہیں۔
اس مذکورہ سمجھوتے کے بعد مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعت ایس پی ڈی اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت سی ڈی یو کے مابین اس موضوع پر جاری تنازعہ بھی حل ہو گیا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ہنر مند تارکین وطن اور مہاجرین لیبر مارکیٹ میں پایا جانے والا خلاء پر کر سکتے ہیں۔ اسی مقصد کی خاطر جرمن حکومت امیگریشن کے حوالے سے ایسی قانون سازی پر کام کر رہی تھی، جس کے تحت خدمات اور صحت کے شعبے کے ساتھ ساتھ دیگر سیکٹرز میں بھی ملازمتوں کا خلا پر کیا جا سکے۔
تارکین وطن کی سماجی قبولیت، کن ممالک میں زیادہ؟
’اپسوس پبلک افیئرز‘ نامی ادارے نے اپنے ایک تازہ انڈیکس میں ستائیس ممالک کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ کن ممالک میں غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۱۔ کینیڈا
پچپن کے مجموعی اسکور کے ساتھ تارکین وطن کو معاشرتی سطح پر ملک کا ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے میں کینیڈا سب سے نمایاں ہے۔ کینیڈا میں مختلف مذاہب، جنسی رجحانات اور سیاسی نظریات کے حامل غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ترک وطن پس منظر کے حامل ایسے افراد کو، جو کینیڈا میں پیدا ہوئے، حقیقی کینیڈین شہری کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Denette
۲۔ امریکا
انڈیکس میں امریکا دوسرے نمبر پر ہے جس کا مجموعی اسکور 54 رہا۔ امریکی پاسپورٹ حاصل کرنے والے افراد اور ترک وطن پس منظر رکھنے والوں کو حقیقی امریکی شہری کے طور پر ہی سماجی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/S. Senne
۳۔ جنوبی افریقہ
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے انڈیکس میں 52 کے مجموعی اسکور کے ساتھ جنوبی افریقہ تیسرے نمبر پر ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار غیر ملکیوں کی سماجی قبولیت کی صورت حال جنوبی افریقہ میں کافی بہتر ہے۔ تاہم 33 کے اسکور کے ساتھ معاشرتی سطح پر شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکیوں کو بطور ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے کا رجحان کم ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
۴۔ فرانس
چوتھے نمبر پر فرانس ہے جہاں سماجی سطح پر غیر ملکی ہم جنس پرست تارکین وطن کی سماجی قبولیت دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ تاہم جنوبی افریقہ کی طرح فرانس میں بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کے باوجود تارکین وطن کو سماجی طور پر حقیقی فرانسیسی شہری قبول کرنے کے حوالے سے فرانس کا اسکور 27 رہا۔
تصویر: Reuters/Platiau
۵۔ آسٹریلیا
پانچویں نمبر پر آسٹریلیا ہے جس کا مجموعی اسکور 44 ہے۔ سماجی سطح پر اس ملک میں شہریت حاصل کر لینے والے غیر ملکیوں کی بطور آسٹریلین شہری شناخت تسلیم کر لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں غیر ملکی افراد کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی معاشرہ حقیقی آسٹریلوی شہری قبول کرتا ہے۔
تصویر: Reuters
۶۔ چلی
جنوبی افریقی ملک چلی اس فہرست میں بیالیس کے اسکور کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ ہم جنس پرست غیر ملکی تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے حوالے سے چلی فرانس کے بعد دوسرا نمایاں ترین ملک بھی ہے۔ تاہم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی مرکزی سماجی دھارے کا حصہ سمجھنے کے حوالے سے چلی کا اسکور محض 33 رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۷۔ ارجنٹائن
ارجنٹائن چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تارکین وطن کی دوسری نسل اور ہم جنس پرست افراد کی سماجی سطح پر قبولیت کے حوالے سے اجنٹائن کا اسکور 65 سے زائد رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۸۔ سویڈن
سویڈن کا مجموعی اسکور 38 رہا۔ ہم جنس پرست تارکین وطن کی قبولیت کے حوالے سے سویڈن کو 69 پوائنٹس ملے جب کہ مقامی پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو بطور حقیقی شہری تسلیم کرنے کے سلسلے میں سویڈن کو 26 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۹۔ سپین
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے لحاظ سے اسپین کا مجموعی اسکور 36 رہا اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ ہسپانوی شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکی افراد کی سماجی قبولیت کے ضمن میں اسپین کا اسکور محض 25 جب کہ تارکین وطن کی دوسری نسل کو حقیقی ہسپانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے اسکور 54 رہا۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
۱۰۔ برطانیہ
اس درجہ بندی میں پینتیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ برطانیہ دسویں نمبر پر ہے۔ اسپین کی طرح برطانیہ میں بھی تارکین وطن کی دوسری نسل کو برطانوی شہری تصور کرنے کا سماجی رجحان بہتر ہے۔ تاہم برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی برطانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے برطانیہ کا اسکور تیس رہا۔
تصویر: Reuters/H. Nicholls
۱۶۔ جرمنی
جرمنی اس درجہ بندی میں سولہویں نمبر پر ہے۔ جرمنی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی سماجی قبولیت کینیڈا اور امریکا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس حوالے سے جرمنی کا اسکور محض 11 رہا۔ اسی طرح جرمن پاسپورٹ مل جانے کے بعد بھی غیر ملکیوں کو جرمن شہری تسلیم کرنے کے سماجی رجحان میں بھی جرمنی کا اسکور 20 رہا۔
تصویر: Imago/R. Peters
۲۱۔ ترکی
اکیسویں نمبر پر ترکی ہے جس کا مجموعی اسکور منفی چھ رہا۔ ترکی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماجی سطح پر ترک شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں ترکی کو منفی بارہ پوائنٹس دیے گئے۔ جب کہ پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی ترک شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کا اسکور منفی بائیس رہا۔