اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں قریب روزانہ ہی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد کی جانب سے مہاجرین کے گھروں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ سن 2015 میں آئے مہاجرین کے بحران سے پہلے کے مقابلے میں ان حملوں کی تعداد اب بھی زیادہ ہے۔
اشتہار
جرمن وفاقی ادارے ’کریمنل پولیس ایجنسی‘ یا ’بی کے اے‘ کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعدادو شمارکے مطابق جرمنی بھر میں اس سال کے پہلے نو ماہ کے دوران مہاجرین کے گھروں پر دو سو گیارہ حملے کیے گئے۔ علاوہ ازیں اکتوبر کی تیئس تاریخ تک پندرہ مزید ایسے واقعات بھی درج کیے گئے ہیں۔
' بی کے اے‘ کے یہ تازہ اعداد و شمار جرمن روزنامے ’نوئے اوسنا بروکر سائٹنگ‘ میں شائع کیے گئے ہیں۔
اگرچہ سن 2016 کے پہلے نو ماہ میں ہوئے نو سو حملوں کے مقابلے میں رواں برس کے حملوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے اس کے باوجود یہ تعداد سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
سن 2015 میں جرمنی نے یورپ بھر میں سب سے زیادہ، قریب ایک ملین مہاجرین کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہا تھا۔ نوئے اوسنا بروکر سائٹنگ کے مطابق جرمن وفاقی ادارے ’بی کے اے‘ نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مہاجرین پر حملے مستقل ہو رہے ہیں اور ہر سہ ماہی میں قریب ستّر حملے ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔
اعداد و شمار کی رُو سے زیادہ تر حملے سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کے مکانات پر کیے گئے، جن میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد ملوث تھے، جب کہ ان جرائم میں دھمکیوں اور سخت جملوں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ نوعیت کے جرائم بہ شمول تشدد اور زخمی کر دینے جیسے واقعات بھی شامل تھے۔
سن 2015ء میں جرمنی میں سیاسی پناہ کے قریب نو لاکھ افراد داخل ہوئے تھے۔ اس کے ردعمل میں جرمنی میں مہاجرین اور مسلم مخالف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا، جب کہ ایسے واقعات میں جرمنی کے مشرقی حصے آگے دکھائی دیتے ہیں۔
مہاجرین کی کہانی، ’’امید کا دوسرا رُخ‘‘
فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈائریکٹر اکی کاؤرِس میکی نے برلن فلم فیسٹیول میں اس فلم پر سلور بیئر حاصل کیا تھا۔ اب یہ فلم جرمن سینما گھروں میں ریلیز کی جا رہی ہے۔
تصویر: Sputnik Oy
دو افراد ایک فلم
ہدایت کار کاؤرِس میکی کی فلمیں چبھنے والے کرداروں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس تازہ فلم میں وہ ایک بار پھر دو زبردست کردار تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک شامی مہاجر خالد علی کا کردار ہے، جسے شیروان حاجی (بائیں جانب) نے ادا کیا اور دوسرا والڈیمار وِکسٹروم کا کردار ہے، جسے زاکاری کوسمانین نے نبھایا۔
تصویر: Sputnik Oy
کامیاب فلم ساز
فروری 2017 میں 67ویں برلن فلم فیسٹیول میں اس فنِش فلم ساز کو ’’دا ادر سائیڈ آف ہوپ‘‘ یا ’’امید کا دوسرا رُخ‘‘ پر سلور بیئر ایوارڈ ملا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/B. Pedersen
فن لینڈ کی مہمان نوازی
اس فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر خطرناک راستوں سے دیگر ممالک تک پہنچنے والے مہاجرین کیسا محسوس کرتے ہیں۔ اس میں مہمان نوازی کے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں، جب فلم کے شامی مہاجر کردار کو ایک ریستوران میں کام کے لیے خوش آمدید کہنے والے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
تصویر: Sputnik Oy/M. Hukkanen
مشکلات کی ترجمانی
فلم کے امید بکھیرتے رنگوں کے ساتھ ساتھ شامی مہاجرین کے فن لینڈ میں ان تکلیف دہ تجربات کو بھی دکھایا گیا ہے، جو سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے اور فن لینڈ میں نیونازیوں کی طرف سے ایک مہاجرین کیمپ پر حملے کی صورت میں ہے۔
تصویر: Sputnik Oy/M. Hukkanen
کاؤرِس میکی کا اسٹائل
اس فلم میں ہدایت کار کاؤرِس میکی کا روایتی رنگ نظر آتا ہے، جو فلم میں سنیما کی تاریخ کے حوالے، مذاق اور سنجیدگی کا امتزاج، اچھی اداکاری اور درست اور اصل موسیقی جیسے شعبوں میں مضبوطی کی صورت میں ہے۔
تصویر: Sputnik Oy/M. Hukkanen
برلن میں تعریف
برلن فلم فیسٹیول میں یہ فلم پیش کی گئی تھی، تو اس نے ناقدین اور عوام کی توجہ فوراﹰ ہی حاصل کر لی۔ یہ فلم قہقہوں کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے مسائل اور زندگیوں کو تفصیل سے پیش کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/P. le Segretain
کاؤرِس میکی کی گزشتہ فلم
کاؤرِس میکی نے مہاجرت ہی کے موضوع پر اس سے قبل بھی فلم بنائی تھی۔ اس وقت یورپ کو مشرقِ وسطیٰ سے مہاجرین کے اتنے بڑے بہاؤ کا سامنا نہیں تھا۔ سن 2011ء میں کاؤرِس میکی نے اپنی فلم ’لے ہاورے‘ نمائش کے لیے پیش کی تھی۔ اس فلم میں افریقہ سے ہجرت کرنے والے ایک لکھاری کی کہانی پیش کی گئی تھی، جو یورپ پہنچا اور موچی کا کام شروع کیا۔