1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی تا افغانستان: پاکستانی نوجوان کا داعش تک کا سفر

12 اپریل 2015

عسکری تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ پاکستان اور افغانستان میں بھی قدم جمانے کی کوششوں میں ہے۔ یہ کہانی ایک اکیس سالہ پاکستانی جرمن کی ہے، جو ممکنہ طور پر پہلا یورپی ہے جس نےپاک افغان خطے سے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی ہے۔

تصویر: picture-allianceAP Photo

گزشتہ موسم سرما میں فیصل آباد کے رہائشی مبشر بشیر فرط جذبات سے لبریز تھے۔ ان کا بھتیجا علی محمد دین پہلی مرتبہ جرمنی سے پاکستان آ رہا تھا۔ خاندان کے سبھی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں علی سے ملنے کے لیے بے تاب تھے اور انہوں نے اس اکیس سالہ نوجوان کا والہانہ استقبال کیا۔ علی نے مغربی لباس ذیب تن کیا ہوا تھا، اور وہ ایک اجنبی ذبان و لہجے میں بات کر رہا تھا۔

تاہم خاندان کی خوشی اور اشتیاق قلیل المدتی ثابت ہوئے۔ جرمنی کے شہر زاربرُوکن سے پاکستان آمد کے ایک ماہ بعد ہی علی افغانستان میں مسلمان شدت پسندوں کے ساتھ ’جہادی‘ کارروائیوں میں مصروف ہو گیا تھا۔

بشیر نے اس حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’ہم سب کے لیے علی کا اچانک غائب ہو جانا ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔‘‘

اہل خانہ نہ ابتدا میں یہ سمجھا کہ علی کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے امسال فروری کی سات تاریخ کو پولیس میں رپورٹ بھی درج کرا دی۔ تفتیش کرنے والوں کو چند روز بعد موبائل فون کے ڈیٹا سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علی شہر کے ایک ایسے نوجوان سے مسلسل رابطے میں تھا جس کے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔

پولیس افسر شوکت علی کے مطابق، ’’جس روز علی غائب ہوا، اس روز اس کی اور پاکستانی نوجوان کی درجن سے زائد مرتبہ فون پر بات ہوئی تھی۔‘‘

اس پاکستانی نوجوان کا نام مبشر الرحمان بتایا گیا ہے۔ اس نے فیصل آباد کے ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی، اور سن دو ہزار آٹھ میں وہ عسکری تربیت لینے کے لیے افغانستان گیا تھا۔

پولیس نے علی کے گھر والوں کی رپورٹ پر مبشر الرحمان، اس کے بھائی عطا الرحمان اور والد ارشد سعید کو علی کے مبینہ اغوا کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ پولیس کے مطابق دوران تفتیش معلوم ہوا کہ علی اپنی مرضی سے افغانستان گیا تھا۔

ارشد سعید کی ضمانت پر رہائی ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کا علی کو افغانستان بھجوانے میں کوئی کردار نہیں تھا۔

پولیس اس سے متفق نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مبشر الرحمان اور علی کا ایک کزن ایک ساتھ مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے رہے تھے۔ اس کزن نے علی کا رابطہ مبشر سے اس وقت کروایا جب علی نے افغان ’جہاد‘ میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔

مبشر سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق علی نے اپنے کزن کو بتایا تھا کہ اس نے جرمنی سے دو مرتبہ شام اور عراق جانے کی کوشش کی تھی تاہم وہ ناکام رہا تھا۔ اس کے بعض ’ہم خیال‘ دوست عراق اور شام جانے اور وہاں سنی عسکری تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش میں شامل ہونے میں کامیاب رہے تھے۔ بعد میں مبشر نے علی کے پاکستان میں ان اسلامی عناصر سے رابطے بھی کرائے جو کہ داعش کے ساتھ رابطے میں تھے۔

دریں اثناء علی نے افغانستان سے پاکستان فون کر کے اپنے خاندان والوں کو بتایا کہ اس نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اور یہ کہ وہ ایک روز واپس لوٹ آئے گا۔

گزشتہ ہفتے علی کی والدہ جرمنی سے پاکستان تشریف لائیں۔ ان کا ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ماضی میں ان کے بیٹے نے کبھی بھی ’جہاد‘ میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ انہوں نے آب دیدہ ہو کر کہا، ’’اسے تو نماز پڑھنا بھی نہیں آتی تھی۔‘‘

علی سن انیس سو ترانوے میں لیبیا میں پیدا ہوا تھا۔ سن دو ہزار چار میں اس کا خاندان جرمنی منتقل ہو گیا جہاں اس نے پناہ حاصل کی۔ دو برس قبل جرمن حکام نے علی کے خاندان کو ویزا اور رہائشی پرمٹ جاری کیا، جس کا مطلب تھا کہ وہ جرمن شہریت حاصل کرنے کے اہل ہو چکے تھے۔ علی کے دو بھائی اور تین بہنیں اب بھی جرمنی میں مقیم ہیں۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ افغانستان اور پاکستان میں اپنا اثر بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس علاقے میں طالبان کی حمایت زیادہ ہے۔ علی وہ پہلا یورپی شخص ہے جو اس خطے سے داعش میں شامل ہوا ہے۔ اس کی کہانی سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یورپ سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوانوں کی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی سرگرمیوں میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔

گزشتہ برس اس عسکری تنظیم نے شام اور عراق کے بہت سے علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ جہاں جہاں یہ تنظیم قابض ہوئی ہے، وہاں وہاں اس نے خود ساختہ خلافت کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق طالبان کی نسبت ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی زمینی کارروائیاں اور توسیع پسندانہ عزائم بہت سے مسلمان نوجوانوں کو زیادہ متاثر کر رہے ہیں۔

shs/mm

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں