جنسی زیادتی اور قتل کے واقعے میں ’افغان مہاجر‘ پر مقدمہ
عاطف توقیر
5 ستمبر 2017
ایک مبینہ افغان مہاجر کو جرمنی میں میڈیکل کی ایک 19 سالہ طالبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے کے الزامات کے تحت عدالتی مقدمے کا سامنا ہے۔
اشتہار
اس مقتولہ طالبہ کی شناخت ماریہ ایل کے نام سے ظاہر کی گئی ہے۔ جرمنی میں نجی کوائف کے قوانین کے تحت کسی متاثرہ شخص یا ملزم کا پورا نام ظاہر نہیں کیا جاتا۔
اٹلی: پولیس نے آٹھ سو تارکین وطن کو رہائش گاہ سے نکال دیا
01:22
اس لڑکی کو جنوب مغربی جرمن شہر فرائی برگ کی جامعہ کے قریب دریا کے کنارے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد پانی میں ڈبو کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
استغاثہ کا خیال ہے کہ اس متاثرہ لڑکی کی نعش کو اس واقعے کے بعد وہیں چھوڑ کر ملزم فرار ہو گیا تھا۔
اس مہاجر کی شناخت حسین کے نام سے ظاہر کی گئی ہے، جب کہ یہ واقعہ گزشتہ برس دسمبر میں پیش آیا تھا۔ واقعے کے دو ماہ بعد ملزم کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ملزم کی اصل شناخت اور عمر تاحال واضح نہیں ہے، تاہم حکام کو دیے گئے اپنے سابقہ بیانات میں ملزم نے بتایا تھا کہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے۔
اس ملزم پر مقدمہ فرائی برگ کی نابالغوں کی ضلعی عدالت میں چلایا جا رہا ہے، تاہم اسے سزا بالغوں کی جیل میں دی جا سکتی ہے۔
عوامی دلچسپی کے اس مقدمے کی سماعت کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، جب کہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے سماعت کے آغاز سے گھنٹوں قبل ہی عدالت کے باہر قطار بنائے دکھائی دی ۔
حسین کی گرفتاری کے بعد ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ اس نے جرمنی پہنچنے سے قبل یونان میں بھی ایک 20 سالہ لڑکی کو تقریباﹰ قتل کر ڈالا تھا۔ اسے اس واقعے پر بھی حراست میں لیا گیا تھا، تاہم بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔
حسین سن 2015ء میں دیگر مہاجرین کے ساتھ جرمنی میں پہنچا تھا اور بہ طور تنہا نابالغ سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔
ہالينڈ ميں مجرم کم پڑ گئے، جیلیں مہاجرين کا ٹھکانہ
يورپی ملک ہالينڈ ميں جرائم اس قدر کم ہو گئے ہيں کہ متعدد قيد خانے اکثر خالی پڑے رہتے ہيں۔ اب حکومت نے معمولی رد و بدل کے ساتھ جيلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کر ديا ہے جہاں کئی پناہ گزين گھرانے زندگی بسر کر رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
جيل ميں گزر بسر مگر قيدی نہيں
مہاجرين کے بحران کے عروج پر 2015ء ميں 59 ہزار پناہ گزينوں نے ہالينڈ کا رخ کيا تھا۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ پہنچنے والوں کی تعداد البتہ قريب ساڑھے اکتيس ہزار رہی۔ اس تصوير ميں ايمسٹرڈيم کے نواحی علاقے Bijlmerbajes ميں قائم ايک سابقہ قيد خانہ ديکھا جا سکتا ہے، جسے اب ايک مہاجر کيمپ ميں تبديل کر ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
عبادت گاہ بھی يہی، گھر بھی يہی
اريتريا سے تعلق رکھنے والی انتيس سالہ تارک وطن ميزا نگاڈٹو ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع Bijlmerbajes کی ايک جيل ميں اپنے کمرے ميں عبادت کرتے ہوئے ديکھی جا سکتی ہيں۔ قيديوں کی کمی کے نتيجے ميں ڈچ حکام نے ملک کے کئی قيد خانوں کو مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ايک ہی چھت تلے نئے رشتے بنتے ہوئے
رواں سال تين جولائی کو لی گئی اس تصوير ميں افريقی رياست برونڈی سے تعلق رکھنے والا سينتيس سالہ ايمابلے نسبمانا اپنے ہم عمر ساتھی اور کانگو کے شہری پارسپر بسيکا کو سائيکل چلانا سکھا رہا ہے۔ يہ دونوں بھی ايمسٹرڈيم کے مضافاتی علاقے ميں قائم ايک سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہيں اور بظاہر وہاں موجود سہوليات سے کافی مطمئن نظر آتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
گھر کی ياد تو پھر بھی آتی ہی ہے
افريقی ملک ايتھوپيا سے تعلق رکھنے والی چاليس سالہ پناہ گزين ماکو ہوسیٰ مہاجر کيمپ کی ايک کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے۔ معروف ڈچ شہر ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع اس سابقہ جيل کو ايشيا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ سے آنے والے تارکين وطن کے ليے کيمپ ميں تبدیل کر ديا گيا ہے۔ در اصل وہاں موجود سہوليات اور عمارت کا ڈھانچہ مطلوبہ مقصد کے ليے کارآمد ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ننے مہاجر بھی موجود
اس سال تيس جون کو لی گئی اس تصوير ميں پانچ سالہ ساندی يزجی اپنے ہاتھ ميں ايک موبائل ٹيلی فون ليے ہوئے ہے۔ شام ميں الحسکہ سے تعلق رکھنے والی يہ بچی شايد کسی سے رابطے کی کوشش ميں ہے۔ يزجی بھی ديگر مہاجرين کی طرح Bijlmerbajes کے مقام پر واقع اس سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
بچوں کے ليے تفريح کا انتظام
انتظاميہ نے صرف بالغوں کی ہی نہيں بلکہ بچوں کی ضروريات پوری کرنے کے ليے بھی انتظامات کر رکھے ہيں۔ اس تصوير ميں شام سے تعلق رکھنے والے دو بھائی عزالين مصطفیٰ اور عبدالرحمان بائيں طرف کھڑے ہوئے احمد اور عامر کے خلاف ٹیبل فٹ بال کھيل رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
’وہ جنہيں ہم پيچھے چھوڑ آئے‘
اريتريا کی تيئس سالہ سانٹ گوئيٹوم اپنے اہل خانہ اور ساتھيوں کی تصاوير دکھا رہی ہیں۔ وہ يہ تصويريں اپنے ساتھ لے کر آئی ہیں۔ کيمپ ميں زندگی اکثر خالی اور بے مقصد لگتی ہے اور ايسے ميں اپنے بہت ياد آتے ہيں۔