حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیں گے، جرمنی
9 مارچ 2019
جرمنی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ برطانوی فیصلے کے برعکس جرمنی حزب اللہ کے سیاسی بازو پر پابندی عائد نہیں کرے گا۔ جرمنی پر امریکا کی جانب سے دباؤ ہے کہ وہ ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
اشتہار
جرمن نائب وزیر خارجہ نیلز آنن نے جرمن نیوز میگزین ’ڈیر اشپیگل‘ کو بتایا کہ ایرانی حمایت یافتہ شیعہ گروپ حزب اللہ تحریک لبنانی معاشرے میں اہمیت رکھتا ہے اور ملک کے پیچیدہ سیاسی عمل کا ایک حصہ ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ نے گزشتہ ماہ حزب اللہ کے سیاسی بازو پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی کہ یہ تنظیم مشرق وُسطیٰ میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔
نیلز آنن کے مطابق، ’’برطانوی عمل ایک قومی فیصلہ ہے جس کا جرمن حکومت یا یورپی یونین کے نقطہ نظر پر براہ راست کوئی اثر نہیں ہے۔‘‘
قبل ازیں یورپی یونین حزب اللہ کے ملٹری ونگ کو 2103ء میں ہی کالعدم دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کر چکی ہے۔
حزب اللہ لبنانی پارلیمان میں نمائندگی رکھتی ہے جبکہ مغربی ممالک کی حمایت یافتہ وزیر اعظم سعد الحریری کی حکومت میں کُل 30 میں سے تین وزارتیں بھی حزب اللہ کے پاس ہیں۔
حزب اللہ کا مسلح دھڑا حالیہ چند برسوں کے دوران لبنان اور شام میں اپنا اثر و رسوخ کافی بڑھا چکا ہے۔ شام میں یہ گروپ روس اور ایران کے حمایت یافتہ ملکی صدر بشارالاسد کا حامی ہے۔ لبنان میں تو حزب اللہ کے عسکری دھڑے کو ملکی فوج سے بھی زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے۔
لبنان کے دورے سے واپس لوٹنے والے جرمنی کے نائب وزیر خارجہ نیلز آنن نے ’ڈیر اشپیگل‘ سے بات کرتے ہوئے امریکا کی اس تنقید کو مسترد کر دیا کہ جرمنی علاقے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ برلن کی خارجہ پالیسی اس پیچیدہ صورتحال کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش میں ہے اور اسی پالیسی کو مزید جاری رکھا جائے گا۔
واضح رہے جرمنی اور یورپی یونین ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ انہوں نے امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کا عمل جاری رکھنے کے لیے ایک متبادل طریقہ کار مرتب کیا ہے تاکہ رقوم کا تبادلہ ممکن ہو سکے۔
لبنان قریب ایک ملین شامی مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے اور شام میں ختم ہوتی جنگ کے تناظر میں بہت سے مہاجرین وطن واپس بھی گئے ہیں۔ جرمنی کے لیے شامی مہاجرین کی محفوظ واپسی ایک اہم معاملہ ہے۔
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔