1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن حکام نے کمیونسٹ پارٹیوں کو عام انتخابات سے باہر کر دیا

9 جولائی 2021

جرمن وفاقی الیکشن کمیٹی کی میٹنگ برلن میں جمعرات کے روز شروع ہوئی۔ کمیٹی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ جرمن وفاقی پارلیمان کے لیے آئندہ ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں کن چھوٹی جماعتوں کو حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔

Deutschland 1. Sitzung im neuen Bundestag
تصویر: Getty Images/AFP/J. MacDougall

جرمن حکام ان 87 سیاسی گروپوں کی طرف سے جمع کرائی گئی درخواستوں پر غور کر رہے ہیں جو ملکی پارلیمان، بنڈس ٹاگ، کے لیے ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں قسمت آزمانا چاہتے ہیں۔

کمیٹی میں ایک چیئرمین، جرمنی کی اہم سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے آٹھ سیاست داں اور دو چوٹی کے جج شامل ہیں۔

جن گروپوں یا جماعتوں کے بنڈس ٹاگ میں پہلے سے ہی کم از کم پانچ سیٹیں حاصل ہیں انہیں اس عمل سے مستشنی رکھا گیا ہے۔ جرمنی میں ہر اہم انتخاب سے قبل الیکشن میں حصہ لینے کے لیے سیاسی گروپوں کے حوالے سے فیصلہ کیا جا تا ہے۔

چونکہ اس سال جرمن چانسلر انگیلا میرکل اپنے عہدے سے دست بردار ہو رہی ہیں اس لیے آئندہ 26 ستمبر کو عام انتخابات ہونے والے ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اس سال اپنے عہدے سے دست بردار ہو رہی ہیں تصویر: Getty Images/AFP/Odd Andersen

کون داخل، کون خارج؟

جمعرات کے روز کمیٹی نے کئی پارٹیوں کواس برس کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

جن جماعتوں کو خارج کر دیا گیا ہے ان میں جرمن کمیونسٹ پارٹی شامل ہے۔ جسے جرمن مخفف ڈی کے پی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سن 1968کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ڈی کے پی کو بنڈس ٹاگ کے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔

سن 2017 کے الیکشن میں ڈی کے پی نے ملک بھر میں مجموعی طورپر تقریباً 11500ووٹ حاصل کیے تھے جو ایک سیٹ بھی حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں تھے۔ مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی آف جرمنی (ایم ایل ڈی پی) اس سے زیادہ کامیاب رہی تھی۔ اس نے تقریباً تیس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے لیکن وہ بھی پارلیمنٹ میں پہنچنے سے کوسوں دور رہ گئی تھی۔ جرمن سوشلسٹوں کے ووٹ زیادہ اعتدال پسند بائیں بازوں کی پارٹی (ڈائی لنکے) کو ملے تھے۔ اس نے سن 2017 میں مجموعی ووٹوں کا 9.2 فیصد حاصل کیا تھا۔

جرمن الیکشن افسران کا کہنا تھا کہ ڈی کے پی ضروری دستاویزات وقت پر جمع کرانے میں ناکام رہی۔

خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق وفاقی الیکشن کمشنر اور کمیٹی کے چیئرمین جارج تھائیل کا کہنا تھا”ڈیڈ لائن تو ڈیڈلائن ہے۔"

تاہم اس طرح کے فیصلوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے امکانات بہر حال برقرار رہتے ہیں۔

ڈی کے پی کے چیئرمین پیٹرک کوبیل نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے کہا،”ہمیں یقین ہے کہ (الیکشن سے) روکنے کی یہ کوشش ناکام ہوجائے گی۔"

87 سیاسی گروپ بنڈس ٹاگ، کے لیے ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں قسمت آزمانا چاہتے ہیںتصویر: picture-alliance/Xinhua/K. Voigt

انارکسٹ بھی جگہ بنانے میں ناکام

ایک اور سیاسی جماعت جو آئندہ الیکشن میں حصہ لینے میں ناکام قرار دی گی، وہ ہے انارکسٹک پوگو پارٹی آ ف جرمنی یا اے اے پی ڈی۔ اس نے 1998کے الیکشن میں حصہ لیا تھا اور ووٹروں کو مفت میں بیئردینے کا وعدہ کیا تھا۔

الیکشن حکام نے اے اے پی ڈی کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کردی کہ اس نے اپنی درخواست صرف الیکٹرانک شکل میں جمع کرائی تھی۔

ساوتھ شیلس وگ ووٹرز ایسوسی ایشن یا ایس ایس ڈبلیو بہر حال زیادہ خوش قسمت رہی۔

ایس ایس ڈبلیو شمالی جرمنی کے شیلس وگ میں رہنے والے ڈینش بولنے والی اقلیتی طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ علاقہ ڈنمارک کے سرحد کے قریب واقع ہے۔

الیکشن کمیٹی کی طرف سے کسی جماعت کو منظوری مل جانے کے بعد ستمبر میں بیلٹ پیپر پر اپنی جگہ بنانا ایک اور دشوار کن مرحلہ ہوتا ہے۔

جرمنی میں کسی بھی جماعت کو ریاستی انتخابی فہرستوں میں خود کو شامل کرانے کے لیے کم از کم پانچ سو حامیوں کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے۔

 ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں